یوم پیدائش21 دسمبر 1942
تیز آندھی نے فقط اک سائباں رہنے دیا
ہم زمیں زادوں کے سر پر آسماں رہنے دیا
لفظ وہ برتے کہ ساری بات مبہم ہو گئی
اک پردہ تھا کہ حائل درمیاں رہنے دیا
آنکھ بستی نے سبھی موسم مسافر کر دیے
ایک اشکوں کی روانی کا سماں رہنے دیا
خون کی سرخی اندھیروں میں اجالا بن گئی
ہم نے ہر صورت چراغوں کو جواں رہنے دیا
صد کمال مہربانی پانیوں نے اس دفعہ
کاغذی کشتی کو لہروں پر رواں رہنے دیا
لاکھ کوشش پر بھی گھر کو گھر نہ کر پائے شفیقؔ
اور پھر ہم نے مکاں کو بس مکاں رہنے دیا
شفیق سلیمی
No comments:
Post a Comment