یوم پیدائش 19 دسمبر 1935
قدم اٹھے تو عجب دل گداز منظر تھا
میں آپ اپنے لیے راستے کا پتھر تھا
دل ایک اور ہزار آزمائشیں غم کی
دیا جلا تو تھا لیکن ہوا کی زد پر تھا
ہر آئینہ مری آنکھوں سے پوچھ لیتا ہے
وہ عکس کیا ہوئے آباد جن سے یہ گھر تھا
ہر اک عذاب کو میں سہ گیا مگر نہ ملا
وہ ایک غم جو مرے حوصلے سے بڑھ کر تھا
یہ وہم تھا کہ مجھے وہ بھلا چکا ہوگا
مگر ملا تو وہ میری ہی طرح مضطر تھا
ہزار بار خود اپنے مکاں پہ دستک دی
اک احتمال میں جیسے کہ میں ہی اندر تھا
تمام عمر کی تنہائیاں سمیٹی ہیں
یہی مرے در و دیوار کا مقدر تھا
اداس رستوں میں پیہم سلگتی صبحوں میں
جو غم گسار تھا کوئی تو دیدۂ تر تھا
مشفق خواجہ
No comments:
Post a Comment