یوم پیدائش 21 دسمبر 1905
دوشاعر ایک مقطع
دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں
ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں
رسمِ الفت میں روا شکوۂ بیداد نہیں
یہ تو کم ظرفیِ جذبات سے فریاد نہیں
وہ مری خاک نشینی کے مزے کیا جانے
جو مری طرح تری راہ میں آباد نہیں
ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے
وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں
ایک زنجیرِ طریقت میں بندھے ہیں دونوں
عشقِ پابند سہی حسن بھی آزاد نہیں
عرش والے نہ سنیں سری خدائی سن لے
اس قدر پست مذاق لبِ فریاد نہیں
روحِ بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن
پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں
حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ
عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں
بربط ماہ پہ مضرابِ فغاں رکھ دی تھی
میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں
قفس بلبل و گل سب ہیں یہ فانوس خیال
کہ تری ذات سے بڑھ کر کوئی صیاد نہیں
لاؤ اک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ساغر نظامی
ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں
میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں
میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے
میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں
میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو
ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں
کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں
کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں
صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے
کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں
زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں
آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں
لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں
ساغر صدیقی
No comments:
Post a Comment