Urdu Deccan

Thursday, December 30, 2021

ساغر نظامی

 یوم پیدائش 21 دسمبر 1905

دوشاعر ایک مقطع


دشت میں قیس نہیں کوہ پہ فرہاد نہیں

ہے وہی عشق کی دنیا مگر آباد نہیں


رسمِ الفت میں روا شکوۂ بیداد نہیں

یہ تو کم ظرفیِ جذبات سے فریاد نہیں


وہ مری خاک نشینی کے مزے کیا جانے 

جو مری طرح تری راہ میں آباد نہیں


ڈھونڈھنے کو تجھے او میرے نہ ملنے والے

وہ چلا ہے جسے اپنا بھی پتہ یاد نہیں


ایک زنجیرِ طریقت میں بندھے ہیں دونوں

عشقِ پابند سہی حسن بھی آزاد نہیں


عرش والے نہ سنیں سری خدائی سن لے 

اس قدر پست مذاق لبِ فریاد نہیں


روحِ بلبل نے خزاں بن کے اجاڑا گلشن

پھول کہتے رہے ہم پھول ہیں صیاد نہیں


حسن سے چوک ہوئی اس کی ہے تاریخ گواہ

عشق سے بھول ہوئی ہے یہ مجھے یاد نہیں


بربط ماہ پہ مضرابِ فغاں رکھ دی تھی

میں نے اک نغمہ سنایا تھا تمہیں یاد نہیں


قفس بلبل و گل سب ہیں یہ فانوس خیال

کہ تری ذات سے بڑھ کر کوئی صیاد نہیں


لاؤ اک سجدہ کروں عالمِ بدمستی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


ساغر نظامی


ہے دعا یاد مگر حرف دعا یاد نہیں

میرے نغمات کو انداز نوا یاد نہیں


میں نے پلکوں سے در یار پہ دستک دی ہے

میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں


میں نے جن کے لیے راہوں میں بچھایا تھا لہو

ہم سے کہتے ہیں وہی عہد وفا یاد نہیں


کیسے بھر آئیں سر شام کسی کی آنکھیں

کیسے تھرائی چراغوں کی ضیا یاد نہیں


صرف دھندلائے ستاروں کی چمک دیکھی ہے

کب ہوا کون ہوا کس سے خفا یاد نہیں


زندگی جبر مسلسل کی طرح کاٹی ہے

جانے کس جرم کی پائی ہے سزا یاد نہیں


آؤ اک سجدہ کریں عالم مدہوشی میں

لوگ کہتے ہیں کہ ساغرؔ کو خدا یاد نہیں


ساغر صدیقی


No comments:

Post a Comment

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...