یوم پیدائش 20 دسمبر 1928
میں نے کس شوق سے اک عمر غزل خوانی کی
کتنی گہری ہیں لکیریں میری پیشانی کی
وقت ہے میرے تعاقب میں چھپا لے مجھ کو
جوئے کم آب قسم تجھ کو ترے پانی کی
یوں گزرتی ہے رگ و پے سے تری یاد کی لہر
جیسے زنجیر چھنک اٹھتی ہے زندانی کی
اجنبی سے نظر آئے ترے چہرے کے نقوش
جب ترے حسن پہ میں نے نظر ثانی کی
مجھ سے کہتا ہے کوئی آپ پریشان نہ ہوں
مری زلفوں کو تو عادت ہے پریشانی کی
زندگی کیا ہے طلسمات کی وادی کا سفر
پھر بھی فرصت نہیں ملتی مجھے حیرانی کی
وہ بھی تھے ذکر بھی تھا رنگ غزل کا شبنمؔ
پھر تو میں نے سر محفل وہ گل افشانی کی
شبنم رومانی
No comments:
Post a Comment