یوم پیدائش 10 جنوری 1914
اب سوچتا ہوں عمر دو روزہ سے کیا ملا
دنیا کو کیا دیا مجھے دنیا سے کیا ملا
جو کم نگاہ تھے وہی اہل نظر بنے
ہم کو ہمارے دیدۂ بینا سے کیا ملا
دل کو دئے ہیں ذوق تمنا نے سو فریب
دل کو مگر فریب تمنا سے کیا ملا
عرفان شوق جوش جنوں ذوق بندگی
ان کی طلب تھی اور مجھے کیا سے کیا ملا
دل ہے کہ رنگ و بو کے تلاطم میں غرق ہے
میں کیا کہوں کہ اس گل رعنا سے کیا ملا
وہ مطمئن ہیں عہد رفاقت کو توڑ کر
ہم منفعل کہ وعدۂ فردا سے کیا ملا
دامن میں آج خار ہیں چھالے ہیں پاؤں میں
گلشن سے کیا ملا مجھے صحرا سے کیا ملا
میرے سرور شوق نے بے خود کیا مجھے
ورنہ خمار بادۂ صہبا سے کیا ملا
تاب نظر نہیں سہی ذوق نظر تو ہے
دل کو خبر سے سعیٔ تماشا سے کیا ملا
کیا شام آرزو سے مبارکؔ کریں امیدؔ
ہم کو ہماری صبح تمنا سے کیا ملا
مبارک مونگیری
No comments:
Post a Comment