یوم پیدائش 01 جنوری 1943
دھوپ چھاؤں ذہنوں کا آسرا نہیں رکھتے
ہم غرض کے بندوں سے واسطہ نہیں رکھتے
زعم پارسائی میں کب خیال ہے ان کو
طنز تو وہ کرتے ہیں آئنہ نہیں رکھتے
سازشیں علامت تو پست ہمتی کی ہیں
سازشیں جو کرتے ہیں حوصلہ نہیں رکھتے
وہ غرور تقویٰ میں بس یہی سمجھتے ہیں
جیسے ہے خدا ان کا ہم خدا نہیں رکھتے
تم ہوس پرستوں کے سینکڑوں خدا ٹھہرے
ایک ہے خدا اپنا دوسرا نہیں رکھتے
کس طرح منور ہو خانۂ شعور انجمؔ
ذہن کے دریچوں کو تم کھلا نہیں رکھتے
انجم عظیم آبادی
No comments:
Post a Comment