پیدائش:01 جنوری 1951
چمن والو حقیقت ہم سے بتلائی نہیں جاتی
گلوں کے دل پہ جو بیتی وہ سمجھائی نہیں جاتی
چمن کا حسن بالآخر گلوں کی آبرو ٹھہرا
یہ عزت شاہ راہ عام پہ لائی نہیں جاتی
غم دوراں کی الجھن ہو کہ وحشت ہو محبت کی
شکستہ دل کی حالت بر زباں لائی نہیں جاتی
ارے کم ظرف مے نوشی کا یہ کوئی سلیقہ ہے
سر محفل مئے گل رنگ چھلکائی نہیں جاتی
سجا دیتا ہوں خوابوں کے در و دیوار پہ اس کو
وہ اک شے جو کسی صورت سے اپنائی نہیں جاتی
نہ پوچھو کیا نگاہ ناز نے دل پر اثر چھوڑا
غزل کے شعر میں تاثیر وہ لائی نہیں جاتی
ہجوم شہر ہو عارفؔ کہ اپنے گھر کی خلوت ہو
نہیں جاتی مگر اپنی یہ تنہائی نہیں جاتی
عارف اعظمی
No comments:
Post a Comment