یوم پیدائش 12 جنوری 1946
صعوبتوں کا سفر ہے سفر تمام تو ہو
ٹھہر بھی سکتا ہوں لیکن کوئی مقام تو ہو
جھلس رہا ہے بدن تو جھلستے رہنے دے
طلسم دھوپ کا ٹوٹے گا پہلے شام تو ہو
حیات ذائقہ اپنا بدل بھی سکتی ہے
ترے لبوں کی حلاوت کا کوئی جام تو ہو
تجھے بھی جانا پڑے گا سراب کے پیچھے
کبھی ہماری طرح تو بھی تشنہ کام تو ہو
میں انتساب نظر تیرے نام کر دوں گا
تری کتاب تمنا میں میرا نام تو ہو
نور پیکر
No comments:
Post a Comment