یوم پیدائش:12 جنوری 1962
اجنبیّت تو آفریدہ ہے
گھر بنایا نہیں خریدہ ہے
ایسے کیسے ثبوت چھوڑے گا
اب کے قاتل جہان دیدہ ہے
نفرتوں میں ترا ترانہ ہے
ظلمتوں میں ترا قصیدہ ہے
تم کہانی یہ سوچ کر لکھنا
اس کی نظروں میں ہرجریدہ ہے
بس محبّت علاج نفرت کا
اہلِ دل کا یہی عقیدہ ہے
عقل جمہوریت پہ حیراں ہے
اب ستم گر بھی بر گزیدہ ہے
ایک آنگن میں ساری بستی تھی
یہ شنیدہ نہیں ہے ، دیدہ ہے
سر بلندی ہے سرنگوں اپنی
سر فروشی بھی سر بریدہ ہے
ہاتھ در در پسارے پھرتا ہوں
پھر بھی گردن جو ہےخمیدہ ہے
دل کا صفحہ دکھا نہیں سکتے
کرم خوردہ ہے یا دریدہ ہے
یہ جگر کھاکے بھی نہیں جاتا
تیرا غم تو بڑا ندیدہ ہے
سن رہے ہیں این،آر،سی میں جلاؔل
نام تیرا بھی خط کشیدہ ہے
جلال کاکوی
No comments:
Post a Comment