یوم پیدائش 06 جنوری
گھر میں دراڑ ڈالتے رشتوں کی خیر ہو
اس آستیں میں آ بسے سانپوں کی خیر ہو
وہ ٹوٹنے لگیں تو سہولت مجھے بھی ہے
شب میں قرار بخشتے تاروں کی خیر ہو
یہ لوگ ہر قدم پہ گرانے لگے مجھے
لیکن سنبھالتی تری بانہوں کی خیر ہو
تو جو نہیں تو پھول تو ہیں آس پاس بھی
اس حبس میں کھلے ہوئے غنچوں کی خیر ہو
رک سا گیا ندی کا بہاؤ برس سے تھا
اس میں دھلے ہوئے ترے پیروں کی خیر ہو
جس سمت ہوں رواں دواں منزل بھی ہے وہیں
رستوں میں جا بہ جا پڑے کانٹوں کی خیر ہو
میں کیا کہوں کہ کتنے زمانے گزر گئے
حصے میں میرے آئیں نہ خوشیوں کی خیر ہو
موج فنا نے دشت میں لا کر جھٹک دیا
حیرت سے دیکھتی تری آنکھوں کی خیر ہو
یہ اضطراب عشق سے تحفہ ملا مجھے
منہ کو چڑا رہے ترے لفظوں کی خیر ہو
باغوں میں سیر کرتے ہوئے جگنوؤں میں تم
تم سے ضیا پکڑتے چراغوں کی خیر ہو
ان کے سبب سے ہی ہوئی میں در سے بے اماں
انعمؔ تمہارے حال پہ ہنستوں کی خیر ہو
انعمتا علی
No comments:
Post a Comment