یوم پیدائش 30 جنوری 1960
جس جگہ جو خوش نشیں آیا نظر رہنے دیا
ہم نے روشن دان میں چڑیوں کا گھر رہنے دیا
مل کے جو بچھڑے انہیں جانے سے روکا بھی نہیں
اور جو ساتھ آئے ان کو ہم سفر رہنے دیا
جس کے ڈر کی کرتے پھرتے ہیں تجارت اہل دیں
ہم نے اس کے خوف سے لرزیدہ شر رہنے دیا
درد دل کو بھی دواؤں سے ہی بہلاتے رہے
بد دعاؤں کو ہمیشہ بے اثر رہنے دیا
ہر سحر تجھ کو بھلانے کے لئے دفتر گیا
اور تری یادوں کو مہماں رات بھر رہنے دیا
جس میں ہاتھوں کو مرے تھامے نظر آتے ہو تم
بس اسی تصویر کو دیوار پر رہنے دیا
سب بدل کر رکھ دیا ہم نے ان آنکھوں کے لئے
ہاں مگر منظر بہ منظر چشم تر رہنے دیا
عبدالسلام عاصم
No comments:
Post a Comment