یوم پیدائش 26 جنوری 2002
خطرات سے ہر گام گزر کیوں نہیں جاتے
جینا نہیں آتا ہے تو مر کیوں نہیں جاتے
یہ عشق کا دریا ہے یہاں موت ہے ممکن
ڈرتے ہو تو کشتی سے اتر کیوں نہیں جاتے
دیوانہ فقط میں نہیں وہ بھی تو ہوا ہے !
آتے ہیں ادھر سنگ ادھر کیوں نہیں جاتے
کب تک یہاں بیٹھو گے فقط آس میں دل کے
اب رات بھی چڑھنے کو ہے گھر کیوں نہیں جاتے
اب مان بھی تو جاؤ نہ! شیراز مری جان
تم حافظ قرآں ہو!! سدھر کیوں نہیں جاتے
شیراز صدیقی
No comments:
Post a Comment