یوم پیدائش 31 جنوری 1933
مرا ضمیر بہت ہے مجھے سزا کے لیے
تو دوست ہے تو نصیحت نہ کر خدا کے لیے
وہ کشتیاں مری پتوار جن کے ٹوٹ گئے
وہ بادباں جو ترستے رہے ہوا کے لیے
بس ایک ہوک سی دل سے اٹھے گھٹا کی طرح
کہ حرف و صوت ضروری نہیں دعا کے لیے
جہاں میں رہ کے جہاں سے برابری کی یہ چوٹ
اک امتحان مسلسل مری انا کے لیے
نمیدہ خو ہے یہ مٹی ہر ایک موسم میں
زمین دل ہے ترستی نہیں گھٹا کے لیے
میں تیرا دوست ہوں تو مجھ سے اس طرح تو نہ مل
برت یہ رسم کسی صورت آشنا کے لیے
ملوں گا خاک میں اک روز بیج کے مانند
فنا پکار رہی ہے مجھے بقا کے لیے
مہ و ستارہ و خورشید و چرخ ہفت اقلیم
یہ اہتمام مرے دست نارسا کے لیے
جفا جفا ہی اگر ہے تو رنج کیا ہو شاذؔ
وفا کی پشت پناہی بھی ہو جفا کے لیے
شاذ تمکنت
No comments:
Post a Comment