یوم وفات 04 فروری 1922
رنگ فطرت ہے وجہ حیرانی
عقل ہے اور حیائے نادانی
رازداں مدعا کو کہتے ہیں
حسن الفت کا داغ پیشانی
حسن باقی نے دل کو کھینچ لیا
رخصت اے حسن ہستئ فانی
دل ہے وقف رجائے رحم و کرم
جاں ہے نذر رضائے ربانی
اب میں سمجھی کہ ہے فنائے خودی
انبساط بہشت لافانی
غم نہ کر ہے نقیب ابر بہار
خشکیٔ موسم زمستانی
دل صد پارہ کے الم گن لوں
دیکھی جائے گی سبحہ گردانی
کر سکے طے نہ ملک عرفاں کو
رومی و مغربی و کرمانی
دورئ بزم دوست کے غم میں
محو افغاں ہے اک افغانی
عرش کے کنگرے پہ طائر قدس
رات کرتا تھا یوں خوش الحانی
کہ ہے انساں طلسم شان خدا
قدر اپنی نہ اس نے پہچانی
بند کیں اس نے جب ذرا آنکھیں
کھل گیا راز بزم امکانی
چارۂ روح فلسفی ہے نہ شیخ
ایک وہمی ہے ایک خفقانی
کثرت این و آں میں وحدت دوست
کنج نایاب کی فراوانی
شیخ رنج بیاں کا ڈر نہ کرے
لا بیاں ہے یہ کیف وجدانی
متشکک ہے اور شکایت ہجر
نزہت اور شکر لطف پنہانی
زاہدہ خاتون شروانیہ
No comments:
Post a Comment