اس کو احساس کی خوشبو سے رہا کرنا تھا
پھول کو شاخ سے کھلتے ہی جدا کرنا تھا
پوچھ بارش سے وہ ہنستے ہوئے روئی کیوں ہے
موسم اس نے تو نشہ بار ذرا کرنا تھا
تلخ لمحے نہیں دیتے ہیں کبھی پیاسوں کو
سانس کے ساتھ نہ زہراب روا کرنا تھا
کس قدر غم ہے یہ شاموں کی خنک رنگینی
مجھ کو لو سے کسی چہرے پہ روا کرنا تھا
چاند پورا تھا اسے یوں بھی نہ تکتے شب بھر
یوں بھی یادوں کا ہر اک زخم ہرا کرنا تھا
دونوں سمتوں کو ہی مڑنا تھا مخالف جانب
ساتھ اپنا ہمیں شعروں میں لکھا کرنا تھا
کرب سے آئی ہے نیناں میں یہ نیلاہٹ بھی
درد کی نیلی رگیں دل میں رکھا کرنا تھا
فرزانہ نیناں
No comments:
Post a Comment