راز اپنے میں خود سنا بیٹھا
ایک پردہ جو تھا اٹھا بیٹھا
مجھ کو توبہ تھی میکشی سے مگر
ہائے ساقی نظر ملا بیٹھا
لطف و راحت بہشت کے آدم
ایک لذت پہ ہی گنوا بیٹھا
دل کے جنگل میں اس قدر بھٹکا
واپسی کے نشاں مٹا بیٹھا
رت ہے سردی بہار آئے گی
دل کے ارمان سب جگا بیٹھا
سرد موسم پہاڑ برفوں کے
بیج پھولوں کے میں دبا بیٹھا
جسم کا اک طبیب ڈھونڈوں گا
روح کے زخم اب چھپا بیٹھا
دیکھتا کم ہوں کم ہی سنتا ہوں
جب سے آہٹ پہ دل لگا بیٹھا

No comments:
Post a Comment