تری انجمن کی نرالی ہے صحبت
کوئی غمزدہ ہے کوئی محوِ حیرت
خدا کی عبادت نہ سجدے کی حاجت
تصور میں تم ہو نگاہوں کی صورت
فنا ہوگیا ہے وجود اب ہمارا
سبب بن گئی ہے تمھاری محبت
امیدوں پہ قائم یہ دنیا ہے لیکن
ضرورت ہے کرتا رہے تو بھی محنت
کھلے رازِ ہستی جو پنہاں تھے اب تک
خرد نے دکھائی جب اپنی کرامت
غزل ہے ہی میری سراپا تمھارا
مرے آئینے میں تمھاری ہے صورت
صنم مل گیا ہے نشاط اب جہاں سے
تعلق ہے کوئی نہ ہے کوئی الفت
No comments:
Post a Comment