کچھ دیر اور روکا گیا گر بیان سے
میں بد زباں چھلکنے لگوں گا زبان سے
میں کس لیے لڑائی کروں آسمان سے
جب کائنات چلتی ہے میرے گمان سے
منظر بدل دیا ہے کسی خوش خصال نے
دل پھینکنے لگے ہیں سپاہی کمان سے
یہ انہدام پہلا قدم ہے نمود کا
پر کاٹنے لگا ہوں رگڑ کر چٹان سے
ممکن ہے خواہشوں کا گلا گھونٹنا پڑے
کچھ خواب سر اٹھا رہے ہیں خواب دان سے
چلمن کی تیلیوں سے سرکتے ہوئے وجود
حماد دیکھ پھول نکلتے، مچان سے
No comments:
Post a Comment