کر لیا تھا مرگِ قبل از مرگ نے مائل مجھے
لے چلی ہے موجِ طوفاں جانبِ ساحل مجھے
آسرا دے اے شعورِ سعیِ لاحاصل مجھے
وجہِ سرگرمی ہے وہمِ دوری منزل مجھے
جلوۂ جاناں سے کب دیکھا گیا غافل مجھے
سایۂ ابرِ رواں تھا پردۂ محمل مجھے
کیا ستم ڈھایا ترا گرنا مری آغوش میں
تجھ کو قاتل کہنے والے کہہ پڑے قاتل مجھے
شمعِ بزمِ بیخودی اک آس تھی سو بجھ گئی
ظلمتِ تنہائی میں اب چھوڑ دے اے دل مجھے
اپنے گیسوئے پریشاں کی طرح برہم نہ ہو
صدمۂ یک جنبشِ لب ہو گیا مشکل مجھے
یوں تو حیراں ہے زمانہ رقصِ بسمل دیکھ کر
"بڑھ کے سینے سے نہ لپٹا لے مرا قاتل مجھے "
روز صبح و شام خنداں ہیں مزاجِ حال پر
دور کرتا جا رہا ہے میرا مستقبل مجھے
شوقِ اظہارِ تمنا پھر اجاگر ہو گیا
پھر کوئی آواز دیتا ہے سرِ محفل مجھے
جوئے خوں نے رکھ لیا ناظرؔ کی آنکھوں کا بھرم
جانِ جاں تم نے تو سمجھا پیار کے قابل مجھے
No comments:
Post a Comment