پرے ہے عقل سے پروازِ آرزوئے قلم
حدِ کمال سے آگے ہے جستجوئے قلم
مرے خیال میں مضمون لے کے آتے ہیں
سروشِ علم سے ہوتی ہے گفتگوئے قلم
غذائے ذہن اگر ہے جہاں کی معلومات
دلوں کی پیاس بجھاتا ہے آب جوئے قلم
یہی دعا ہے کہ علم و ادب کے گلشن میں
گلوں کے خامہ سے اٹھے فضا میں بوئے قلم
ادب کی قدر سے جو نابلد ہیں کیا جانیں
کہ اہلِ علم ہی ہوتے ہیں روبروئے قلم
یہ علم ایک قلم کار کی عبادت ہے
نماز حرف ، سیاہی ہے گر وضوئے قلم
میں آج قوم کی تاریخ لکھنے بیٹھا ہوں
یہ امتحان ہے ، رہ جا اے آبروئے قلم
امیرِ شہر ہو احکم ادب کی دنیا کے
اٹھو کہ دستِ سخنور بڑھا ہے سوئے قلم
No comments:
Post a Comment