قصۂ غم سنانا نہیں چاہیے
زخم دل کا دکھانا نہیں چاہیے
جو زبانِ خموشی نہ سمجھے اسے
حال دل کا بتانا نہیں چاہیے
پونچھ دو سب کے آنسو اگر ہو سکے
پر کسی کو رلانا نہیں چاہیے
شوق سے آسمانوں میں اڑیئے مگر
دن پرانے بھلانا نہیں چاہیے
عید کا چاند سمجھیں گے اہلِ نظر
آپ کو چھت پہ آنا نہیں چاہیے
ہم تو ہر رت میں اخترؔ اجڑتے رہے
دل کی بستی بسانا نہیں چاہیے
محمد ظہور اختر
No comments:
Post a Comment