Urdu Deccan

Wednesday, May 12, 2021

مجنوں گورکھپوری

 یوم پیدائش 10 مئی 1904

نظم بلبل


چمن میں لائی ہے پھولوں کی آرزو تجھ کو

ملا کہاں سے یہ احساس رنگ و بو تجھ کو

تری طرح کوئی سرگشتۂ جمال نہیں

گلوں میں محو ہے کانٹوں کا کچھ خیال نہیں

خزاں کا خوف نہ ہے باغباں کا ڈر تجھ کو

مآل کار کا بھی کچھ خطر نہیں تجھ کو

خوش اعتقاد و خوش آہنگ خوش نوا بلبل

جگر کے داغ کو پر نور کر دیا کس نے

تجھے اس آگ سے معمور کر دیا کس نے

یہ دل یہ درد یہ سودا کہاں سے لائی ہے

کہاں کی تو نے یہ طرز فغاں اڑائی ہے


تجھے بہار کا اک مرغ خوش نوا سمجھوں

کہ درد مند دلوں کی کوئی صدا سمجھوں

سوا اک آہ کے سامان ہست و بود ہے کیا

تو ہی بتا ترا سرمایۂ وجود ہے کیا

وہ نقد جاں ہے کہ ہے نالۂ حزیں تیرا

نشان ہستیٔ موہوم کچھ نہیں تیرا

اسے بھی وقف تمنائے یار کر دینا!

نثار جلوۂ گل جان زار کر دینا!


ہزار رنگ خزاں نے بہار نے بدلے

ہزار روپ یہاں روزگار نے بدلے

تری قدیم روش دیکھتا ہوں بچپن سے

ہے صبح و شام تجھے کام اپنے شیون سے

اثر پذیر حوادث ترا ترانہ نہیں؟

دیار عشق میں یا گردش زمانہ نہیں؟

نہ آشیانہ کہیں ہے نہ ہے وطن تیرا

رہے گا یوں ہی بسیرا چمن چمن تیرا


ترا جہان ہے بالا جہان انساں سے

کہ بے نیاز ہے تو حادثات امکاں سے

ترا فروغ فروغ جمال جاناں ہے

ترا نشاط نشاط گل و گلستاں ہے

تری حیات کا مقصد ہی دوست داری ہے

ترا معاملہ سود و زیاں سے عاری ہے

ازل کے دن سے ہے محو جمال جانانہ

رہے گی تا بہ ابد ماسوا سے بیگانہ

تجھے کس آگ نے حرص و ہوا سے پاک کیا

تمام خرمن ہستی جلا کے خاک کیا 


مجھے بھی دے کوئی داروئے خود فراموشی

جہاں و کار جہاں سے رہے سبکدوشی

متاع ہوش کو اک جستجو میں کھونا ہے

مجھے بھی یعنی ترا ہم صفیر ہونا ہے

''تو خوش بنال مرا با تو حسرت یاری است

کہ ما دو عاشق زاریم و کار ما زاری است


مجنوں گورکھپوری


قمر جمیل

 یوم پیدائش 10 مئی 1927


شام عجیب شام تھی جس میں کوئی افق نہ تھا

پھول بھی کیسے پھول تھے جن کو سخن کا حق نہ تھا


یار عجیب یار تھا جس کے ہزار نام تھے

شہر عجیب شہر تھا جس میں کوئی طبق نہ تھا


ہاتھ میں سب کے جلد تھی جس کے عجیب رنگ تھے

جس پہ عجیب نام تھے اور کوئی ورق نہ تھا


جیسے عدم سے آئے ہوں لوگ عجیب طرح کے

جن کا لہو سفید تھا جن کا کلیجہ شق نہ تھا


جن کے عجیب طور تھے جن میں کوئی کرن نہ تھی

جن کے عجیب درس تھے جن میں کوئی سبق نہ تھا


لوگ کٹے ہوئے ادھر لوگ پڑے ہوئے ادھر

جن کو کوئی الم نہ تھا جن کو کوئی قلق نہ تھا


جن کا جگر سیا ہوا جن کا لہو بجھا ہوا

جن کا رفو کیا ہوا چہرہ بہت ادق نہ تھا


کیسا طلسمی شہر تھا جس کے طفیل رات بھی

میرے لہو میں گرد تھی آئینۂ شفق نہ تھا


قمر جمیل


شمشاد شاؔد

 اپنی آغوش میں پالے ہیں پیمبر اس نے

باعثِ فخر ہے عورت کے لئے ماں ہونا 


شمشاد شاؔد


عقیل آسرا

 تمہاری انجمن میں بس خفا خفا ہوں میں

ہیں سب ملے جلے فقط جدا جدا ہوں میں


ہے مثلِ روشنی یہاں سبھی کے پیرہن

مرا بدن بجھا بجھا، بجھا بجھا ہوں میں


دوانگی مجھے یہاں خراب ہی رکھے

جنونیت میں کر رہا خدا خدا ہوں میں


مصیبتوں کی بارشیں تمام روک دیں

ابھی تو ایک عارضی سا بلبلا ہوں میں


یہ زندگی مری فقط ہے ناؤ نوحؑ کی

کہ جس کا سام حام اور ناخدا ہوں میں


فرشتے کیوں نہ رشک میری ذات پے کرے

غلامِ مصطفی ﷺغلامِ مرتضیﷺہوں میں


اے سو برس کے آسراؔ ذرا تو رک کے آ

کہ وقت ہے ابھی، ابھی ابھی رکا ہوں میں


عقیل آسراؔ


شمیم دانش

 یوم پیدائش 09 مئی 


اشک غم کر دیے دامن کے حوالے ہم نے

ہائے افسوس یہ موتی نہ سنبھالنے ہم نے


کوئی مشکل نہ تھا دشمن سے نمٹنا لیکن

آستینوں میں کئی سانپ جو پالے ہم نے


یہ بھی تیری ہی عطا تھی جو خدایا تیرے

حالت مرگ بھی احکام نہ ٹالے ہم نے


اب ہمارے لئے پھرتا ہے وہ نشتر لے کر

جن کے تلوؤں سے کبھی خار نکالے ہم نے


شمیم دانش


عنبر بہرائچی

 یوم وفات 07 مئی 2021


آج پھر دھوپ کی شدت نے بڑا کام کیا

ہم نے اس دشت کو لمحوں میں کنول فام کیا


میرے حجرے کو بھی تشہیر ملی اس کے سبب

اور آندھی نے بھی اس بار بہت نام کیا


روز ہم جلتی ہوئی ریت پہ چلتے ہی نہ تھے

ہم نے سائے میں کجھوروں کے بھی آرام کیا


دل کی بانہوں میں سجاتے رہے آہوں کی دھنک

ذہن کو ہم نے رہ عشق میں گم نام کیا


شہر میں رہ کے یہ جنگل کی ادا بھول گئے

ہم نے ان شوخ غزالوں کو عبث رام کیا


اپنے پیروں میں بھی بجلی کی ادائیں تھیں مگر

دیکھ کر طور جہاں خود کو سبک گام کیا


شاہراہوں پہ ہمیں تو نہیں مصلوب ہوئے

قتل مہتاب نے خود کو بھی لب بام کیا


جانے کیا سوچ کے پھر ان کو رہائی دے دی

ہم نے اب کے بھی پرندوں کو تہہ دام کیا


ختم ہو گی یہ کڑی دھوپ بھی عنبرؔ دیکھو

ایک کہسار کو موسم نے گل اندام کیا


عنبر بہرائچی


اقبال خلش آکوٹوی

 یوم وفات 08 مئی 2021

انا اللہ وانا الیہ راجعون


تصور میں نبیﷺ کے شہر کا منظر بھی ہوتا ہے 

غمِ ہجراں میں لیکن میرا دامن تر بھی ہوتا ہے 


ہمیں قرآں بتاتا ہے یہ سنّت ہے رسولوں کی 

نبی کارِ نبوّت کے لیے بے گھر بھی ہوتا ہے 


نبیﷺ چھولیں اگر سوکھا شجر سرسبز ہوجائے

اگر چومیں لبوں سے معتبر پتھر بھی ہوتا ہے 


کیے ظلم و ستم سرکارﷺ نے انگیز ایسے بھی

کہ جن کا سوچنا اپنے لیے دوبھر بھی ہوتا ہے 


سفیر آتا ہے فارس کا اگرچہ کرٌ و فر کے ساتھ 

چٹائی پر نبیﷺ کو دیکھ کر ششدر بھی ہوتا ہے 


حیاتِ مصطفیٰﷺ کا جزوِ لازم بوریا ٹھہرا 

تہجٌد میں مصلٌیٰ بعد میں بستر بھی ہوتا ہے 


نبیﷺ کی پرورش کا فیض ہو جس کے مقدّر میں 

وہ دیدہ ور بھی ہوتا ہے علیؓ حیدر بھی ہوتا ہے 


درِ سرکارﷺ پر نعتیں خلش ! روکر سناتےہیں 

ہمارے خواب میں یہ واقعہ اکثر بھی ہوتا ہے 


اقبال خلش آکوٹوی


محسن کشمیری

 آپﷺ کے صدقے میں آقا دین پیارا مل گیا

"آپﷺ آئے بے سہاروں کو سہارا مل گیا"


آپﷺ جب تشریف لائے دور ظلمت ہوگئی

زندگی سب کی ہوئی روشن وہ تارا مل گیا


چاند بھی شرما گیا میرے نبیﷺ کو دیکھ کر

اور دو ٹکڑے ہوا جب اک اشارہ مل گیا


آپ کی نسبت کا ہے آقاﷺ مرے سارا اثر

جو مجھے بھی نعت خوانی کا وتیرا مل گیا


مشکلیں آساں ہوئیں آقاﷺ بڑا احسان ہے

ڈوبتی کشتی کو میری اک کنارہ مل گیا


نعت میں سرکار کی لکھتا گیا پھر یوں ہوا

مصطفیﷺ کے در پہ جانے کا اشارہ مل گیا


کیا تمنا اب کروں جنت کی محسؔؔن تو بتا

گنبد خضراء کا مجھ کو جب نظارہ مل گیا


محسن کشمیری


مصور عباس

 یوم پیدائش 08 مئی


یہ کِس کے ہاتھوں جَلایا گیا چراغوں کو 

کہ رَستہ چھوڑ کے چَلنا پَڑا ہواؤں کو


ہَوا کے ہاتھ پہ لاشے ہیں سوکھے پَتوں کے

خزاں نے کَر دیا پامال سب درختوں کو


فقیر وجد میں آیا تو سب نے توبہ کی

بشر ہی بَننا پڑا شہر کے خداٶں کو


مباہلے کی روایت ہے اور حکم بھی ہے

میں اپنے ساتھ فقط لے کے جاٶں سَچوں کو


پھر اَندھےلوگوں کےہاتھوں میں روشنی دےدی

 یوں اب کی بار ڈرایا گیا اندھیروں کو


وہ ساری رات بَھلا کیسے تجھ سے بات کرے

سکول چھوڑنے جَانا ہو جِس نے بچوں کو


پھراُس جگہ سے ہی سب دیکھتے ہیں دنیا میں

جہاں بناۓ مُصّوِر تمہاری آنکھوں کو


مصور عباس


خالد ملک

 یوم پیدائش 08 مئی


یہ جھگڑے کیسے ختم ہونگے ہائے کچھ خبر نہیں 

چھٹیں گے کب اداسیوں کے سائے کچھ خبر نہیں 


ہماری زندگی میں کچھ نہیں ھے سسکیاں ہیں بس

 ہماری روح کب سفر پہ جائے کچھ خبر نہیں 


ہماری سوچ میں اداسی ڈیرہ ڈالے بیٹھی ہے  

  کہاں تمام زندگی ہو جائے کچھ خبر نہیں 


میں روز کوچے میں تمہارے آتا ہوں امید پر

  کہ کب مجھے نصیب تُو ہو جائے کچھ خبر نہیں 


کہیں کسی کی تھوڑی سی نظر تو لگ نہیں گئی ؟

یہ کیوں مرا ہے دل بھی ڈوبا جائے کچھ خبر نہیں  


نجومی نے بھی ہاتھ دیکھ کر مرا یہ کہہ دیا 

تری لکیریں ۔۔۔اف خدا بچائے کچھ خبر نہیں 

 

 خالد ملک


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...