Urdu Deccan

Tuesday, June 1, 2021

سلطان اطہر

 پُر اِنتشار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں

ہم بے قرار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


مُضطر ہیں دیکھتے ہُوئے یُوں کاروانِ وقت

بن کر غُبار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


فِطرت سے بھاؤ تاؤ تو کر ہی لیا مگر

لے کے اُدھار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


راہِ فرار کر گئے تھے اختیار جو

وسطِ مدار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


پہلے تو آئے سامنے خم ٹھونکتے ہُوئے

اب میرے یار، کیفیتِ گومگو میں ہیں


یا رب ! نکال کش مکشِ دو جہان سے

پروردگار ! کیفیتِ گومگو میں ہیں


اطہؔر ہمارا تُم سے نہ مِل پاۓ گا مزاج

ہم بے شُمار ، کیفیتِ گومگو میں ہیں


سلمان اطہر


عبید صدیقی

 یوم پیدائش 27 مئی 1957


تری نسبت سے اپنی ذات کا ادراک کرنے میں

بہت عرصہ لگا ہے پیرہن کو چاک کرنے میں


تری بستی کے باشندے بہت آسودہ خاطر ہیں

تکلف ہو رہا ہے درد کو پوشاک کرنے میں


ہم اپنے جسم کا سونا سفر پر لے کے نکلے ہیں

مگر ڈرتے ہیں اس کو راستوں کی خاک کرنے میں


فقط اک دیدۂ تر ہے کہ جو سیراب کرتا ہے

سمندر سوکھ جاتے ہیں بدن نمناک کرنے میں


ہمارے ساتھ کچھ گزرے ہوئے موسم بھی شامل ہیں

تماشا گاہ عالم تجھ کو عبرت ناک کرنے میں


عبید صدیقی


عمران رفعت

 یوم پیدائش 26 مئی1977


نہ ایسا کوئی سودا گرم بازاری میں کر لینا

تم اپنے گھر کا بٹوارہ نہ گھر داری میں کر لینا


کہاں سے وار کرنا ہے کہاں پر وار کرنا ہے

یہ نا سمجھی سے مت کرنا سمجھداری میں کر لینا


بدی تم نے تو بو رکھی ہے سارے کھیت میں لیکن

سنو کچھ نیکیاں پیدا بھی اک کیاری میں کر لینا


علم گرنے نہ پائے ہاتھ کٹ جائے تو کٹ جائے

اک ایسا کام بھی اپنی علم داری کر لینا


ابھی ہے وقت اپنی آرزوئیں پوری کرنے کا

رہا پرہیز تو پرہیز بیماری میں کر لینا


تمہیں جب بے سبب افواہ پھیلانے کی عادت ہے

لہو میرا بھی شامل اپنی گل کاری میں کر لینا


ہمارے نام درویشوں کا یہ پیغام ہے رفعت

گزارا جس طرح بھی ہو وفا داری میں کر لینا 


عمران رفعت


حرا قاسمی

 وم پیدائش 26 مئی


آئے گا ترے پاس نہ دنیا کا کوئی شر

اے صاحبِ اوصاف تو والنّاس پڑھا کر


منظورِ نظر اہلِ طرب ہی ہیں ترے کیوں

ہم سے بھی تو، تو مل کبھی صحراؤں میں آ کر


لوگوں کی نگاہوں سے چھپاؤں تجھے کیسے

اے شخص ترا نام تو لکھا ہے جبیں پر


اب آنکھ کے سوتے سے نکلتا نہیں ہے خوں

اک عمر ہوئی سوکھ گیا درد کا ساغر


تو وادی ء گلشن کے اجڑنے کا سبب ہے

الزام یہ رکھا ہے بہاروں نے مرے سر


حرا قاسمی


شفیق جونپوری

 یوم پیدائش 26 مئی 1902


ایسی نیند آئی کہ پھر موت کو پیار آ ہی گیا

رات بھر جاگنے والے کو قرار آ ہی گیا


خاک میں یوں نہ ملانا تھا مری جاں تم کو

اک وفادار کے دل میں بھی غبار آ ہی گیا


یاد گیسو نے تسلی تو بہت دی لیکن

سامنے رات مآل دل زار آ ہی گیا


کشتۂ ناز کی میت پہ نہ آنے والا

پھول دامن میں لیے سوئے مزار آ ہی گیا


یہ بیاباں یہ شب ماہ یہ خنکی یہ ہوا

اے خزاں تجھ کو بھی انداز بہار آ ہی گیا


آفریں اشک ندامت کی درخشانی کو

اک سیہ کار کے چہرے پہ نکھار آ ہی گیا


بعد منزل بھی نہ محسوس ہوا مجھ کو شفیقؔ

مرحبا صل علیٰ کوچۂ یار آ ہی گیا


شفیق جونپوری


محشر فیض آبادی

 مزاحیہ 


جب ملے ہم اور سلمہ عشق فرمانے لگے 

پھر زمانے بھر کی دونوں گالیاں کھانے لگے 

وه بھی ہم کو دوستو لیلیٰ کی ماں لگنے لگی 

ہم بھی اس کو قیس کے والد نظر آنے لگے 


محشر فیض آبادی 


سلطان محی الدین

 میں اک غریب شاعر تم امیر و حسین 

نہ ہی پانے کی تمنا ہے نہ ہی ملنے کا یقین 

سلطان محی الدین انجم


میراجی

 یوم پیدائش 25مئی 1912


نگری نگری پھرا مسافر گھر کا رستا بھول گیا

کیا ہے تیرا کیا ہے میرا اپنا پرایا بھول گیا


کیا بھولا کیسے بھولا کیوں پوچھتے ہو بس یوں سمجھو

کارن دوش نہیں ہے کوئی بھولا بھالا بھول گیا


کیسے دن تھے کیسی راتیں کیسی باتیں گھاتیں تھیں

من بالک ہے پہلے پیار کا سندر سپنا بھول گیا


اندھیارے سے ایک کرن نے جھانک کے دیکھا شرمائی

دھندلی چھب تو یاد رہی کیسا تھا چہرہ بھول گیا


یاد کے پھیر میں آ کر دل پر ایسی کاری چوٹ لگی

دکھ میں سکھ ہے سکھ میں دکھ ہے بھید یہ نیارا بھول گیا


ایک نظر کی ایک ہی پل کی بات ہے ڈوری سانسوں کی

ایک نظر کا نور مٹا جب اک پل بیتا بھول گیا


سوجھ بوجھ کی بات نہیں ہے من موجی ہے مستانہ

لہر لہر سے جا سر پٹکا ساگر گہرا بھول گیا


میراجی


داغ دہلوی

 یوم پیدائش 25مئی 1831


کعبہ کی ہے ہوس کبھی کوئے بتاں کی ہے

مجھ کو خبر نہیں مری مٹی کہاں کی ہے


سن کے مرا فسانہ انہیں لطف آ گیا

سنتا ہوں اب کہ روز طلب قصہ خواں کی ہے


پیغام بر کی بات پر آپس میں رنج کیا

میری زباں کی ہے نہ تمہاری زباں کی ہے


کچھ تازگی ہو لذت آزار کے لیے

ہر دم مجھے تلاش نئے آسماں کی ہے


جاں بر بھی ہو گئے ہیں بہت مجھ سے نیم جاں

کیا غم ہے اے طبیب جو پوری وہاں کی ہے


حسرت برس رہی ہے ہمارے مزار پر

کہتے ہیں سب یہ قبر کسی نوجواں کی ہے


وقت خرام ناز دکھا دو جدا جدا

یہ چال حشر کی یہ روش آسماں کی ہے


فرصت کہاں کہ ہم سے کسی وقت تو ملے

دن غیر کا ہے رات ترے پاسباں کی ہے


قاصد کی گفتگو سے تسلی ہو کس طرح

چھپتی نہیں وہ بات جو تیری زباں کی ہے


جور رقیب و ظلم فلک کا نہیں خیال

تشویش ایک خاطر نامہرباں کی ہے


سن کر مرا فسانۂ غم اس نے یہ کہا

ہو جائے جھوٹ سچ یہی خوبی بیاں کی ہے


دامن سنبھال باندھ کمر آستیں چڑھا

خنجر نکال دل میں اگر امتحاں کی ہے


ہر ہر نفس میں دل سے نکلنے لگا غبار

کیا جانے گرد راہ یہ کس کارواں کی ہے


کیونکہ نہ آتے خلد سے آدم زمین پر

موزوں وہیں وہ خوب ہے جو سنتے جہاں کی ہے


تقدیر سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ عشق میں

تدبیر کوئی بھی ستم ناگہاں کی یے


اردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغؔ

ہندوستاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے


داغ دہلوی


شمشاد شاد

 عناد، بغض و حسد اور نفرتوں کا لہو

رگوں میں دوڑ رہا ہے عداوتوں کا لہو 


ہوائے شہر ہوئی جب سے خودسر و ببارک

جنوں زدہ ہوا جاتا ہے چاہتوں کا لہو


صحافتیں ہوئیں جب سے سیاستوں کی غلام 

ورق ورق پہ ہے بکھرا حقیقتوں کا لہو


اگر نہ ہوتا یہاں بول بالا رشوت کا 

تو رائیگاں نہیں جاتا لیاقتوں کا لہو


ادب کی بزم میں تُک بندیاں! معاذ اللہ

نہیں ہے تاب جو دیکھوں بلاغتوں کا لہو


لہو لہو ہوئی دھرتی لہو لہو آکاش

ہے شش جہات میں بکھرا رفاقتوں کا لہو


جدید فکر و ترقی کے نام پر انساں

بہا رہا ہے مسلسل روایتوں کا لہو


انا کی پیاس بجھانے کے واسطے تم کو

ملا تھا شاؔد ہماری ہی حسرتوں کا لہو

 

شمشاد شاؔد،


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...