Urdu Deccan

Thursday, June 24, 2021

شہاب الدین شاہ قنوجی

 جاکے مریخ پہ رہنے کی نہ تیاری کر

اپنی دنیا میں فقط اور شجرکاری کر


باغ پھولوں سے بھرے دل ہو محبت سے بھرا

اپنی دنیا میں حسیں اور یہ گل کاری کر


دل کی مٹی تو ہے زرخیز اگا لے سبزا

اپنی آنکھوں کی نمی کو ہی فقط کھاری کر


عشق فطرت ہے ہماری یہی منصب اے شاہ

اب زمیں پر نہ کہیں اور تو بمباری کر


شہاب الدین شاہ قنوجی


احیاء بھوجپوری

 یوم پیدائش 20 جون


ہاتھوں کی لکیروں کا لکھا کاٹ رہے ہیں

ہم اپنے گناہوں کی سزا کاٹ رہے ہیں


مٹتی نہیں تاریخ سے کوئی بھی عبارت

تاریخ لکھے گی کہ لکھا کاٹ رہے ہیں


ہے آج کی فصلوں میں عداوت ہی عداوت

کیا بویا تھا ہم نے یہاں کیا کاٹ رہے ہیں


ہم پھول ہیں مہکیں گے جدھر جائیں گے لیکن

اس باغ میں رہنے کی سزا کاٹ رہے ہیں


گاتے تھے کبھی وہ بھی محبت کے ترانے

موقع جو ملا ہے تو گلا کاٹ رہے ہیں


آسان بنانا ہے محبت کی ڈگر کو

چن چن کے سو ہم لفظ وفا کاٹ رہے ہیں


احیاء بھوجپوری


ارشد غازی

 یوم پیدائش 19 جون 1958


وہ خود سری ہے نگاہوں سے التجا نہ ہوئی

کہ ہم سے رسمِ جہاں آج تک ادا نہ ہوئی


یہ انتہا پہ بنی اور انتہا نہ ہوئی

کہ اب کی بار بھی دنیا کی ابتدا نہ ہوئی


سدا دیا مجھے طوفاں کی موج نے ساحل

شکستہ ناؤ مری صرفِ ناخدا نہ ہوئی


اِسے نہ شکوہ سمجھ ! سادہ زندگی میری

ہزار بار ملی اور آشنا نہ ہوئی


ابھی ملے بھی نہیں تھے کہ وہ بچھڑ بھی گئے

کسی فسانے کی یہ کوئی ابتدا نہ ہوئی


کہا کہ جا ترا دنیا میں اب نہیں حصہ

مرے عمل کی مگر یہ کوئی جزا نہ ہوئی


سمجھ سکا نہ مقرر دلوں کے بھید وہاں

کہ مدتوں سے لگی بھیڑ ہمنوا نہ ہوئی


مزہ تو جب ہے تری فکرِ بازگشت بنے

جو لوٹ کر نہیں آئے تو وہ صدا نہ ہوئی


بس اتنی بات پہ محشر میں تھے سوال و جواب

جو میں پکارا کہ مجھ سے کوئی خطا نہ ہوئی


ارشد غازی


مرزا راحل

 یوم پیدائش 19 جون


محاذ عشق پہ نکلے تو تین تھے ہم لوگ

بہت غریب تھے لیکن امین تھے ہم لوگ 


ہوئے جوان تو قبروں سے یہ صدا آئی

ذرا سنبھل کے یہیں کے مکین تھے ہم لوگ


تمہارے ساتھ تعلق میں خود کو کھو بیٹھے 

کہ اس سے پہلے بہت ہی ذہین تھے ہم لوگ


حسین شخص کو اتنا بتا دیا جائے

ترے ظہور سے پہلے حسین تھے ہم لوگ 


ہمیں وہ حسبِ ضرورت ہی پاس رکھتا تھا 

کہ اس کے واسطے جیسے مشین تھے ہم لوگ


مرزا راحل


ادیب سہیل

 یوم پیدائش 18 جون 1927


پیچ و خم وقت نے سو طرح ابھارے لوگو

کاکل زیست مگر ہم نے سنوارے لوگو


اپنے سائے سے تمہیں آپ ہے دہشت زدگی

تم ہو کس مصلحت وقت کے مارے لوگو


ہم سفر کس کو کہیں کس کو سنائیں غم دل

پنبہ در گوش ہوئے سارے سہارے لوگو


ضربت سنگ بنے اپنی صدا کے غنچے

گنبد جہد میں ہم جب بھی پکارے لوگو


مجھ سے تم دور بھی رہ کر ہو رگ جاں سے قریب

مرے نادیدہ رفیقو مرے پیارے لوگو


ادیب سہیل 


محمد مسعود اختر

 یوم پیدائش 19 جون


تیر شکستہ تھے ، تلوار پرانی تھی 

میری جیت پہ دشمن کو حیرانی تھی


پانی میں اک عکس تھا شام سہانی کا

باغ میں لیکن تنہا رات کی رانی تھی


 جنگ سہی پر بچوں کو پیاسا رکھنا 

 اس بزدل کی سوچ ہی غیر انسانی تھی


جس دن میرے دل میں عید کا چاند کھلا 

شہر کے سب بازاروں میں ویرانی تھی


کیسے دن تھے ، کیسی جاگتی راتیں تھیں

خواب تھے اور تعبیروں کی نگرانی تھی


ایک زمانہ تھا جب سب کچھ بہتر تھا

کچھ حد تک جینے میں بھی آسانی تھی


جوگن کی آنکھوں میں آنسو ٹھہرا تھا 

جوگی کے ہونٹوں پر ایک کہانی تھی


محمد مسعود اختر


امجد حسین حافظ کرناٹکی

 یوم پیدائش 18 جون 1964


رنج و غم لاکھ ہوں مسکراتے رہو

دوست دشمن سے ملتے ملاتے رہو


یہ اندھیرے ہیں مہمان اک رات کے

تم مگر صبح تک جگمگاتے رہو


میں بھلانے کی کوشش کروں گا تمہیں

تم مجھے روز و شب یاد آتے رہو


راہ کے پیچ و خم خود سلجھ جائیں گے

سوئے منزل قدم کو بڑھاتے رہو


ابر بن کر برستے رہو ہر طرف

عمر شادابیوں کی بڑھاتے رہو


موت آئے تو خاموش کر جائے گی

زندگی گیت ہے اس کو گاتے رہو


تازہ دم مجھ کو رکھنا ہے حافظؔ تو پھر

ہر قدم پر مجھے آزماتے رہو


امجد حسین حافظ کرناٹکی


خالد شریف

 یوم پیدائش 18 جون 1947


رخصت ہوا تو بات مری مان کر گیا

جو اس کے پاس تھا وہ مجھے دان کر گیا


بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا


دلچسپ واقعہ ہے کہ کل اک عزیز دوست

اپنے مفاد پر مجھے قربان کر گیا


کتنی سدھر گئی ہے جدائی میں زندگی

ہاں وہ جفا سے مجھ پہ تو احسان کر گیا


خالدؔ میں بات بات پہ کہتا تھا جس کو جان

وہ شخص آخرش مجھے بے جان کر گیا


خالد شریف


محی الدین ہمدم

 یوم پیدائش 16 جون 1956


عمر رفتہ کے مہ و سال پہ رونا آیا

بخت خفتہ کے برے حال پہ رونا آیا


مال و دولت پہ ہمیں فخر تھا کتنا اپنے

موت آئی تو زر و مال پہ رونا آیا


اس کی رحمت نے بچایا ہمیں بے شک لیکن

ہمیں خود اپنے ہی اعمال پہ رونا آیا


بات تک رکھتے ہیں محدود جو نیکی اپنی 

ایسے اصحاب کے اقوال پہ رونا آیا


دکھ پہ اوروں کے تجھے دیکھ کے روتا،مجھ کو

ہمدم خستہ ترے حال پہ رونا آیا



محی الدین ہمدم

حاشر افنان

 یوم پیدائش 17 جون 


ہم پھر نہ مل سکے کبھی الفت کی راہ میں 

حائل غمِ فراق تھا قسمت کی راہ میں


اس کا تھا یہ گمان ملے گا جہاں مجھے 

پایا نہ ایک ذرہ بھی حسرت کی راہ میں


کیا حال کر دیا ترے دل کے مریض کا 

کانٹے بچھا دیے گئے چاہت کی راہ میں


کل کی خبر نہیں ہے ہمیں پر یقین ہے 

جلنا پڑے گا تم کو محبت کی راہ میں


اپنے لیے امید کا رستہ چنو میاں

کچھ بھی نہیں ملے گا ملامت کی راہ میں


لینا ہے کام صبر و تحمل سے دوستو

پتھر پڑیں گے حق و صداقت کی راہ میں


کردے کرم کی ایک نظر ہے قضا قریب 

شاید کہ اب ملیں تجھے جنت کی راہ میں

 

پہلے پہل رکاوٹیں آئیں گی سوچ لے  

حاشر سنبھل کے چلنا محبت کی راہ میں


  حاشر افنان


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...