Urdu Deccan

Saturday, July 17, 2021

عادل حیات

 یوم پیدائش 15 جولائی 1975


ہر اک جواب کی تہ میں سوال آئے گا

گئے یگوں کے بتوں کا زوال آئے گا


ہنر کا عکس بھی ہو آئنہ بھی بن جاؤ

پھر اس کے بعد ہی رنگ کمال آئے گا


حریف جاں ہے اگر وہ تو پھر کہو اس سے

گئی جو جان تو دل کا سوال آئے گا


یقین ہے کہ ملے گا عروج ہم کو بھی

یقین ہے کہ ترا بھی زوال آئے گا


ابھی امید کو مایوسیوں کا رنگ نہ دے

ٹھہر ٹھہر ابھی اس کا خیال آئے گا


اسی کے شہہ پہ بجھے گا چراغ دل عادلؔ

نہاں خلوص میں جو اشتعال آئے گا


عادل حیات


جمیل مرصع پوری

 یوم پیدائش 15 جولائی 1931


صدیوں سے زمانے کا یہ انداز رہا ہے

سایہ بھی جدا ہو گیا جب وقت پڑا ہے


بھولے سے کسی اور کا رستہ نہیں چھوتے

اپنی تو ہر اک شخص سے رفتار جدا ہے


اس رند بلا نوش کو سینے سے لگا لو

مے خانے کا زاہد سے پتا پوچھ رہا ہے


منجدھار سے ٹکرائے ہیں ہمت نہیں ہارے

ٹوٹی ہوئی پتوار پہ یہ زعم رہا ہے


گھر اپنا کسی اور کی نظروں سے نہ دیکھو

ہر طرح سے اجڑا ہے مگر پھر بھی سجا ہے


میکش کسی تفریق کے قائل ہی نہیں ہیں

واعظ کے لیے بھی در مے خانہ کھلا ہے


یہ دور بھی کیا دور ہے اس دور میں یارو

سچ بولنے والوں کا ہی انجام برا ہے


جمیلؔ مرصع پوری


شیر بہادر اختر

 منتشر ہوگئے تسبیح کے دانے کیسے 

ایسا لگتا ہے خدا ہم سے خفا ہے شاید 


شیر بہادر اختر


ریاض ساغر

 دشمن تہذیب مشرق دیکے کچھ عشرت کے خواب

ہم سے تہذیب و تمدن کی قبا لے جائے گا

ریاض ساغر


نادیہ سحر

 کچھ نہیں ملتا محبت میں یہی سچ ہے سحر 

پیار کے کھیل میں انسان بکھر جاتا ہے 

نادیہ سحر


ساغر مہدی

 وم پیدائش 14 جولائی 1936


ذہن بے سمت خیالوں کا نشانہ ہے یہاں

زندگی جیسے یوں ہی ٹھوکریں کھانا ہے یہاں


نغمہ نوحہ ہے یہاں چیخ ترانہ ہے یہاں

بات سو ڈھنگ سے کرنے کا بہانہ ہے یہاں


قہقہہ اپنی تباہی پہ لگانا ہے یہاں

اس خزانہ کو بہر حال لٹانا ہے یہاں


کل کتب خانوں کی ہم لوگ بھی رونق ہوں گے

ہر حقیقت کے مقدر میں فسانہ ہے یہاں


اس خرابے سے نکل کر لب دریا کیا جائیں

ایک قطرے میں سمندر کا فسانا ہے یہاں


کیسے بے حرف و صدا درد کی روداد کہیں

ایک ایک لفظ تو صدیوں کا پرانا ہے یہاں


گھر سے گھبرا کے جو نکلا تو یہ بولی دہلیز

پاؤں شل ہوں گے تو پھر لوٹ کے آنا ہے یہاں


ہر طرف سوچ میں ڈوبے ہوئے یکساں چہرے

جیسے ہر چار طرف آئینہ خانہ ہے یہاں


ساغر مہدی


حمایت علی شاعر

 یوم پیدائش 14 جولائی 1926


ہر قدم پر نت نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں لوگ

دیکھتے ہی دیکھتے کتنے بدل جاتے ہیں لوگ 


کس لیے کیجے کسی گم گشتہ جنت کی تلاش

جب کہ مٹی کے کھلونوں سے بہل جاتے ہیں لوگ 


کتنے سادہ دل ہیں اب بھی سن کے آواز جرس

پیش و پس سے بے خبر گھر سے نکل جاتے ہیں لوگ 


اپنے سائے سائے سرنہوڑائے آہستہ خرام

جانے کس منزل کی جانب آج کل جاتے ہیں لوگ 


شمع کے مانند اہل انجمن سے بے نیاز

اکثر اپنی آگ میں چپ چاپ جل جاتے ہیں لوگ 


شاعرؔ ان کی دوستی کا اب بھی دم بھرتے ہیں آپ

ٹھوکریں کھا کر تو سنتے ہیں سنبھل جاتے ہیں لوگ


حمایت علی شاعر


Friday, July 16, 2021

جبار واصف

 یوم پیدائش 13 جولائی 1975


عجیب خواب تھا ہم باغ میں کھڑے ہوئے تھے

ہمارے سامنے پھولوں کے سر پڑے ہوئے تھے


برہنہ تتلیاں رقصاں تھیں عریاں شاخوں پر

زمیں میں سارے شجر شرم سے گڑے ہوئے تھے


تمام پات تھے نیلے بزرگ برگد کے

اسی کو ڈسنے سے سانپوں کے پھن بڑے ہوئے تھے


ضعیف پیڑ تھے بوڑھی ہوا سے شرمندہ

جواں پرندے کسی بات پر اڑے ہوئے تھے


نہ کوئی نغمۂ بلبل نہ کوئی نغمۂ گل

خدائے صبح سے سب خوش گلو لڑے ہوئے تھے


پھر ایک قبر ہوئی شق تو اس میں تھے دو دل

اور ان دلوں میں محبت کے نگ جڑے ہوئے تھے


وہیں پہ سامنے واصفؔ تھا ایک قبرستاں

جہاں یہاں وہاں سب نامور سڑے ہوئے تھے


جبار واصف


افق لکھنؤی

 یوم پیدائش 13 جولائی 1864


ہمارے زخم میں ٹھنڈک لہو سے ہوتی رہتی ہے

تسّلی دل کی تکلیفِ رفو سے ہوتی رہتی ہے


زمانہ قدر داں ہوتا ہے صورت اور سیرت کا

گلوں کی قدر جیسے رنگ و بو سے ہوتی رہتی ہے


نہیں تکلیف سے خالی کسی کا پھولنا پھلنا

شجر پر سنگ باری چار سو سے ہوتی رہتی ہے


جو میں آپ آپ کہتا ہوں حقارت وہ سمجھتے ہیں

مری عزت فزائی لفظ ” تُو “ سے ہوتی رہتی ہے


قناعت کرتی رہتی ہے جو سیپی اگر نیساں پر

بسر دُرِّ عدن کی آبرو سے ہوتی رہتی ہے 


ہے مجھ پہ مہرباں اس قدر تکلیف زنداں کی

کہ خم گردن میری طوق گلو سے ہوتی رہتی ہے


میانِ میکدہ جب دیر تک ساقی نہیں ملتا

تشفی رند کی جام و سبو سے ہوتی رہتی ہے


افق کی میکشی کی حافظِ شیراز کی صورت

زمانے میں شہرت لکھنؤ سے ہوتی رہتی ہے 


افق لکھنؤی


ایس ڈی عابد

 یوم پیدائش 13 جولائی 1969


عین ممکن تھا کسی رنگ میں ڈھالے جاتے

گر ترے درد مرے دل سے سنبھالے جاتے


میں جو آدابِ محبت سے شناسا ہوتا

تیری محفل میں دیئے میرے حوالے جاتے


تم اگر کرتے حمایت میں مری لفظ ادا

میری ہر بات میں کیوں نقص نکالے جاتے


مجھ کو دولت سے اگر رب نے نوازا ہوتا

عیب میرے نہ زمانے میں اُچھالے جاتے


میں نے اچھا ہی کیا دوست بنائے ہی نہیں 

آستینوں میں کہاں مجھ سے یہ پالے جاتے


تُو بھی کہتا کہ وفادار ہے عابدؔ تیرا 

تیرے ارشاد اگر مجھ سے نہ ۔۔۔ ٹالے جاتے


 ایس،ڈی،عابدؔ


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...