Urdu Deccan

Saturday, July 17, 2021

یزدانی جالندھری

 یوم پیدائش 16 جولائی 1915


سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم

تاریکیوں میں پھر بھی اتارے گئے ہیں ہم


راس آ سکی نہ ہم کو ہوا تیرے شہر کی

یوں تو قدم قدم پہ سنوارے گئے ہیں ہم


کچھ قہقہوں کے ابر رواں نے دیا نکھار

کچھ غم کی دھوپ سے بھی نکھارے گئے ہیں ہم


ساحل سے رابطہ ہیں نہیں ٹوٹتا کبھی

کیسے سمندروں میں اتارے گئے ہیں ہم


ٹوٹا نہ راہ شوق میں افسون تیرگی

لے کر جلو میں چاند ستارے گئے ہیں ہم


جانا محال تھا تری محفل کو چھوڑ کر

پا کر تری نظر کے اشارے گئے ہیں ہم


اس تیرہ خاکداں میں کوئی پوچھتا نہیں

کہنے کو آسماں سے اتارے گئے ہیں ہم


سو بار بار غم نے پریشاں کیا ہمیں

سو بار مثل زلف سنوارے گئے ہیں ہم


اس سلسلے میں موت تو بدنام ہے یونہی

اس زندگی کے ہاتھوں ہی مارے گئے ہیں ہم


گرداب غم میں ڈوب کے ابھرے ہیں بارہا

کس نے کہا کنارے کنارے گئے ہیں ہم


یزدانؔئ حزیں ہمیں کچھ بھی خبر نہیں

اس آستاں پہ کس کے سہارے گئے ہیں ہم


یزدانی جالندھری


ظہیر ناصری

 یوم پیدائش 16 جولائی 1947


رکھ دی تھی بایزیدؒ نے بانی سمیٹ کر

حق بول اٹھا تھا "اعظم شانی" سمیٹ کر


امّید اپنی ایک مجاور ہے بے مزار

تھک سی گئی ہے فاتحہ خوانی سمیٹ کر


ہم نےورودِ شعر کی خاطر تمام رات

مانگی زکوٰۃِ فکر، معانی سمیٹ کر


سانسوں کی ڈور ٹوٹی جو کنبے کی فکر میں

وہ جارہا ہے اپنی جوانی سمیٹ کر


شاید کہ اس بہانے تمھیں یاد آئیں گے

پرکھوں کی رکّھو گھر میں نشانی سمیٹ کر


بےحس سماعتیں ہوں تو کیا زیبِ داستاں

بہتر ہے آپ کہئیے کہانی سمیٹ کر


غالبؔ کی عظمتوں کو ہمارا سلام ہے

رکھ دی غزل میں بحرِ معانی سمیٹ کر 


سیکھو ظہیر ضبط کا انداز برف سے

قدرت نے خود دکھا دیا پانی سمیٹ کر


ظہیر ناصر

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

خزانہ دل میں علم وآگہی کا ہم بھی رکھتے ہیں

مٹانے تشنگی مٹّی کا کوزہ ہم بھی رکھتے ہیں


قلندرہیں ہمیں دربارِشاہی سے ھے کیا مطلب

وہاں تک باریابی کا وثیقہ ہم بھی رکھتے ہیں


چمن میں پھولنے پھلنے کا موقع کیوں نہیں حاصل

سرِشاخِ تمنّاآشیانہ ہم بھی رکھتے ہیں


ابھی طاقِ گماں میں کچھ دھواں باقی ھے ماضی کا

یقیں انگیز بنناہوتو سرمہ ہم بھی رکھتے ہیں


نواحِ شہرِ جاں میں آگ برسانے کی خوُ کب تک

بجھانے آگ نوحی پاک دریا ہم بھی رکھتے ہیں


ترے نقشِ قدم ہیں چاند کے سینے پہ، حیرت کیا

اُسے دونیم کرنے کا اشارا ہم بھی رکھتے ہیں


اگر زنخیر ٹوٹے پاسداری کی ظہیر اک دن

ہُنر حلقوں کو پھر سے جوڑنے کا ہم بھی رکھتے ہیں


ظہیر ناصری


گوہر ملسیانی

 یوم پیدائش 15 جولائی 1934


سیرت وکردار دیتے ہیں شہادت آپ کی

چار سو تاباں جہاں میں ہے صداقت آپ کی


زندگانی کا سلیقہ آپ نے بتلا دیا!

نوعِ انساں پر ہے بے پایاں عنایت آپ کی


آپ کے افکار تو قرآن کی تفسیر ہیں

باعثِ رحمت زمانے میں رسالت آپ کی


ملّتِ بیضا کی عظمت آپ کی تعلیم میں

کامیابی کی دلالت ہے شریعت آپ کی


جھولیاں بھرتے رہے محتاج بھی، مسکین بھی

باخدا اتنی فراواں تھی سخاوت آپ کی


کاروان فکر کا جادہ جہان شوق میں

منزل مقصود کا رستہ ہدایت آپ کی


گوہر ملسیانی


امر روحانی

 کچھ بھی نہ چلی پیش کوئی روپ بدل کے

میں زیر ابد کا ہوں، زبر ہیں وہ ازل کے


تجھ کو نہ ڈبو دے کہیں اے ہجرِ مسلسل

تلخابۂ حسرت مری آنکھوں سے نکل کے


پتھر بھی ہیں، کانٹے بھی ہیں، آسیب ِ سفر بھی

رک جا دلِ نادان ، ذرا چلنا سنبھل کے


بیمارِ بتاں کو ملے جب شرفِ ملاقات

دل دوڑ کے باہر کو ہی آوے ہے مچل کے


ہر روز امرؔ خواب سجاتا ہوں میں دل میں

ہر روز گزر جائیں وہ تعبیر کچل کے


اَمر رُوحانی


سعید شہیدی

 یوم پیدائش 14 جولائی 1914


آج آئے ہیں کل جانا ہے پھر عشق کو رسوا کون کرے

دو روزہ دنیا ہے یہ تو دنیا کی تمنا کون کرے


مجبور نہیں مختار سہی خودداری کو رسوا کون کرے

جب موت ہی مانگے سے نہ ملی جینے کی تمنا کون کرے


اس لذت غم کا کیا کہنا وہ یاد تو آتے رہتے ہیں

غم دینے والے کے صدقے اب غم کا مداوا کون کرے


بر آئے تمنا جب نہ کوئی پھر ایسی تمنا سے حاصل

گو دل کا تقاضہ لاکھ سہی توہین تمنا کون کرے


ہونٹوں پہ ہنسی آنکھوں میں نمی ماتھے پہ شکن بل ابرو میں

اللہ ری طرز پرسش غم اب غم کا شکوہ کون کرے


مخمور فضا مستانہ گھٹا ساغر کی کھنک غنچوں کی چٹک

اب ایسے موسم میں ساقی اندیشۂ فردا کون کرے


کیوں اپنے نشیمن کو خود ہی اب آگ لگا دیں ہم نہ سعیدؔ

بجلی کی شکایت کون کرے آندھی کا شکوہ کون کرے


سعید شہیدی


عادل حیات

 یوم پیدائش 15 جولائی 1975


ہر اک جواب کی تہ میں سوال آئے گا

گئے یگوں کے بتوں کا زوال آئے گا


ہنر کا عکس بھی ہو آئنہ بھی بن جاؤ

پھر اس کے بعد ہی رنگ کمال آئے گا


حریف جاں ہے اگر وہ تو پھر کہو اس سے

گئی جو جان تو دل کا سوال آئے گا


یقین ہے کہ ملے گا عروج ہم کو بھی

یقین ہے کہ ترا بھی زوال آئے گا


ابھی امید کو مایوسیوں کا رنگ نہ دے

ٹھہر ٹھہر ابھی اس کا خیال آئے گا


اسی کے شہہ پہ بجھے گا چراغ دل عادلؔ

نہاں خلوص میں جو اشتعال آئے گا


عادل حیات


جمیل مرصع پوری

 یوم پیدائش 15 جولائی 1931


صدیوں سے زمانے کا یہ انداز رہا ہے

سایہ بھی جدا ہو گیا جب وقت پڑا ہے


بھولے سے کسی اور کا رستہ نہیں چھوتے

اپنی تو ہر اک شخص سے رفتار جدا ہے


اس رند بلا نوش کو سینے سے لگا لو

مے خانے کا زاہد سے پتا پوچھ رہا ہے


منجدھار سے ٹکرائے ہیں ہمت نہیں ہارے

ٹوٹی ہوئی پتوار پہ یہ زعم رہا ہے


گھر اپنا کسی اور کی نظروں سے نہ دیکھو

ہر طرح سے اجڑا ہے مگر پھر بھی سجا ہے


میکش کسی تفریق کے قائل ہی نہیں ہیں

واعظ کے لیے بھی در مے خانہ کھلا ہے


یہ دور بھی کیا دور ہے اس دور میں یارو

سچ بولنے والوں کا ہی انجام برا ہے


جمیلؔ مرصع پوری


شیر بہادر اختر

 منتشر ہوگئے تسبیح کے دانے کیسے 

ایسا لگتا ہے خدا ہم سے خفا ہے شاید 


شیر بہادر اختر


ریاض ساغر

 دشمن تہذیب مشرق دیکے کچھ عشرت کے خواب

ہم سے تہذیب و تمدن کی قبا لے جائے گا

ریاض ساغر


نادیہ سحر

 کچھ نہیں ملتا محبت میں یہی سچ ہے سحر 

پیار کے کھیل میں انسان بکھر جاتا ہے 

نادیہ سحر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...