Urdu Deccan

Saturday, July 17, 2021

عزیز وارثی

 یوم پیدائش 17 جولائی 1924


سوزش غم کے سوا کاہش فرقت کے سوا

عشق میں کچھ بھی نہیں درد کی لذت کے سوا


دل میں اب کچھ بھی نہیں ان کی محبت کے سوا

سب فسانے ہیں حقیقت میں حقیقت کے سوا


کون کہہ سکتا ہے یہ اہل طریقت کے سوا

سارے جھگڑے ہیں جہاں میں تری نسبت کے سوا


کتنے چہروں نے مجھے دعوت جلوہ بخشی

کوئی صورت نہ ملی آپ کی صورت کے سوا


غم عقبیٰ غم دوراں غم ہستی کی قسم

اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا


بزم جاناں میں ارے ذوق فراواں اب تک

کچھ بھی حاصل نہ ہوا دیدۂ حیرت کے سوا


وہ شب ہجر وہ تاریک فضا وہ وحشت

کوئی غمخوار نہ تھا درد کی شدت کے سوا


محتسب آؤ چلیں آج تو مے خانے میں

ایک جنت ہے وہاں آپ کی جنت کے سوا


جو تہی دست بھی ہے اور تہی دامن بھی

وہ کہاں جائے گا تیرے در دولت کے سوا


جس نے قدرت کے ہر اقدام سے ٹکر لی ہے

وہ پشیماں نہ ہوا جبر مشیت کے سوا


مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں مرے احباب عزیزؔ

کیا ملا شہر سخن میں تمہیں شہرت کے سوا


عزیز وارثی


طفیل ہوشیارپوری

 یوم پیدائش 17 جولائی 1914


انجُمن انجُمن شِناسائی

دِل کا پھر بھی نصیب تنہائی


خُشک آنکھوں سے عمر بھرروئے

ہو نہ جائے کِسی کی رُسوائی


جب کبھی تُم کو بُھولنا چاہا

انتقاماً تمہاری یاد آئی


جب کِسی نے مزاجِ غم پُوچھا

دل تڑپ اُٹّھا، آنکھ بھر آئی


جذبۂ دل کا اب خُدا حافِظ

حُسن مُحتاج، عِشق سودائی


طفیل ہوشیارپوری​


بسمل صابری

 یوم پیدائش 17 جولائی


وہ عکس بن کے مری چشم تر میں رہتا ہے

عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے


وہی ستارہ شب غم کا اک ستارہ ہے

وہ اک ستارہ جو چشم سحر میں رہتا ہے


کھلی فضا کا پیامی ہوا کا باسی ہے

کہاں وہ حلقۂ دیوار و در میں رہتا ہے


جو میرے ہونٹوں پہ آئے تو گنگناؤں اسے

وہ شعر بن کے بیاض نظر میں رہتا ہے


گزرتا وقت مرا غم گسار کیا ہوگا

یہ خود تعاقب شام و سحر میں رہتا ہے


مرا ہی روپ ہے تو غور سے اگر دیکھے

بگولہ سا جو تری رہ گزر میں رہتا ہے


نہ جانے کون ہے جس کی تلاش میں بسملؔ

ہر ایک سانس مرا اب سفر میں رہتا ہے


بسمل صابری


اسلم حبیب

 یوم پیدائش 16 جولائی 1950


زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے

تو جو سورج ہے تو پھر سائے میں چلتا کیوں ہے


تو جو پتھر ہے تو پھر پلکوں پہ آنسو کیسے

تو سمندر ہے تو پھر آگ میں جلتا کیوں ہے


میرے چہرے میں جو شائستہ نظر آتا ہے

میری شریانوں میں وہ شخص ابلتا کیوں ہے


کل تمہیں نے اسے یہ پیالہ دیا تھا یارو

معترض کیوں ہو کہ وہ زہر اگلتا کیوں ہے


میری سانسوں میں سسکنے کی صدا آتی ہے

ایک مرگھٹ سا مرے سینے میں جلتا کیوں ہے


جانے کن ذروں سے اس خوں کی شناسائی ہے

پاؤں اس موڑ پہ ہی آ کے پھسلتا کیوں ہے


محفل لغو سے تہذیب نے کیا لینا ہے

ایسے شوریدہ سروں میں تو سنبھلتا کیوں ہے


اسلم حبیب


رانا التمش

 مجھ کو فراقِ یار نے پاگل بنا دیا

یعنی کہ انتظار نے پاگل بنا دیا


شاعر بنے ہوئے ہیں سبھی شہر کے مکین

سب کو تمھارے پیار نے پاگل بنا دیا


مجھ کو براۓ شوق بھی رنگیں اداؤں سے 

جانِ وفا شعار نے پاگل بنا دیا 


غربت نشیبِ بخت کا کانٹا بھی ہے مگر

لوگوں کو روز گار نے پاگل بنا دیا


تم مجھ کو چاہتی ھو یا میرے رقیب کو

مجھ کو اسی بچار نے پاگل بنا دیا


اب ہم کو التمش بہ خلوصِ لحاظِ جان

مرضِ دلِ فگار نے پاگل بنا دیا


رانا التمش


یزدانی جالندھری

 یوم پیدائش 16 جولائی 1915


سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم

تاریکیوں میں پھر بھی اتارے گئے ہیں ہم


راس آ سکی نہ ہم کو ہوا تیرے شہر کی

یوں تو قدم قدم پہ سنوارے گئے ہیں ہم


کچھ قہقہوں کے ابر رواں نے دیا نکھار

کچھ غم کی دھوپ سے بھی نکھارے گئے ہیں ہم


ساحل سے رابطہ ہیں نہیں ٹوٹتا کبھی

کیسے سمندروں میں اتارے گئے ہیں ہم


ٹوٹا نہ راہ شوق میں افسون تیرگی

لے کر جلو میں چاند ستارے گئے ہیں ہم


جانا محال تھا تری محفل کو چھوڑ کر

پا کر تری نظر کے اشارے گئے ہیں ہم


اس تیرہ خاکداں میں کوئی پوچھتا نہیں

کہنے کو آسماں سے اتارے گئے ہیں ہم


سو بار بار غم نے پریشاں کیا ہمیں

سو بار مثل زلف سنوارے گئے ہیں ہم


اس سلسلے میں موت تو بدنام ہے یونہی

اس زندگی کے ہاتھوں ہی مارے گئے ہیں ہم


گرداب غم میں ڈوب کے ابھرے ہیں بارہا

کس نے کہا کنارے کنارے گئے ہیں ہم


یزدانؔئ حزیں ہمیں کچھ بھی خبر نہیں

اس آستاں پہ کس کے سہارے گئے ہیں ہم


یزدانی جالندھری


ظہیر ناصری

 یوم پیدائش 16 جولائی 1947


رکھ دی تھی بایزیدؒ نے بانی سمیٹ کر

حق بول اٹھا تھا "اعظم شانی" سمیٹ کر


امّید اپنی ایک مجاور ہے بے مزار

تھک سی گئی ہے فاتحہ خوانی سمیٹ کر


ہم نےورودِ شعر کی خاطر تمام رات

مانگی زکوٰۃِ فکر، معانی سمیٹ کر


سانسوں کی ڈور ٹوٹی جو کنبے کی فکر میں

وہ جارہا ہے اپنی جوانی سمیٹ کر


شاید کہ اس بہانے تمھیں یاد آئیں گے

پرکھوں کی رکّھو گھر میں نشانی سمیٹ کر


بےحس سماعتیں ہوں تو کیا زیبِ داستاں

بہتر ہے آپ کہئیے کہانی سمیٹ کر


غالبؔ کی عظمتوں کو ہمارا سلام ہے

رکھ دی غزل میں بحرِ معانی سمیٹ کر 


سیکھو ظہیر ضبط کا انداز برف سے

قدرت نے خود دکھا دیا پانی سمیٹ کر


ظہیر ناصر

۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔

خزانہ دل میں علم وآگہی کا ہم بھی رکھتے ہیں

مٹانے تشنگی مٹّی کا کوزہ ہم بھی رکھتے ہیں


قلندرہیں ہمیں دربارِشاہی سے ھے کیا مطلب

وہاں تک باریابی کا وثیقہ ہم بھی رکھتے ہیں


چمن میں پھولنے پھلنے کا موقع کیوں نہیں حاصل

سرِشاخِ تمنّاآشیانہ ہم بھی رکھتے ہیں


ابھی طاقِ گماں میں کچھ دھواں باقی ھے ماضی کا

یقیں انگیز بنناہوتو سرمہ ہم بھی رکھتے ہیں


نواحِ شہرِ جاں میں آگ برسانے کی خوُ کب تک

بجھانے آگ نوحی پاک دریا ہم بھی رکھتے ہیں


ترے نقشِ قدم ہیں چاند کے سینے پہ، حیرت کیا

اُسے دونیم کرنے کا اشارا ہم بھی رکھتے ہیں


اگر زنخیر ٹوٹے پاسداری کی ظہیر اک دن

ہُنر حلقوں کو پھر سے جوڑنے کا ہم بھی رکھتے ہیں


ظہیر ناصری


گوہر ملسیانی

 یوم پیدائش 15 جولائی 1934


سیرت وکردار دیتے ہیں شہادت آپ کی

چار سو تاباں جہاں میں ہے صداقت آپ کی


زندگانی کا سلیقہ آپ نے بتلا دیا!

نوعِ انساں پر ہے بے پایاں عنایت آپ کی


آپ کے افکار تو قرآن کی تفسیر ہیں

باعثِ رحمت زمانے میں رسالت آپ کی


ملّتِ بیضا کی عظمت آپ کی تعلیم میں

کامیابی کی دلالت ہے شریعت آپ کی


جھولیاں بھرتے رہے محتاج بھی، مسکین بھی

باخدا اتنی فراواں تھی سخاوت آپ کی


کاروان فکر کا جادہ جہان شوق میں

منزل مقصود کا رستہ ہدایت آپ کی


گوہر ملسیانی


امر روحانی

 کچھ بھی نہ چلی پیش کوئی روپ بدل کے

میں زیر ابد کا ہوں، زبر ہیں وہ ازل کے


تجھ کو نہ ڈبو دے کہیں اے ہجرِ مسلسل

تلخابۂ حسرت مری آنکھوں سے نکل کے


پتھر بھی ہیں، کانٹے بھی ہیں، آسیب ِ سفر بھی

رک جا دلِ نادان ، ذرا چلنا سنبھل کے


بیمارِ بتاں کو ملے جب شرفِ ملاقات

دل دوڑ کے باہر کو ہی آوے ہے مچل کے


ہر روز امرؔ خواب سجاتا ہوں میں دل میں

ہر روز گزر جائیں وہ تعبیر کچل کے


اَمر رُوحانی


سعید شہیدی

 یوم پیدائش 14 جولائی 1914


آج آئے ہیں کل جانا ہے پھر عشق کو رسوا کون کرے

دو روزہ دنیا ہے یہ تو دنیا کی تمنا کون کرے


مجبور نہیں مختار سہی خودداری کو رسوا کون کرے

جب موت ہی مانگے سے نہ ملی جینے کی تمنا کون کرے


اس لذت غم کا کیا کہنا وہ یاد تو آتے رہتے ہیں

غم دینے والے کے صدقے اب غم کا مداوا کون کرے


بر آئے تمنا جب نہ کوئی پھر ایسی تمنا سے حاصل

گو دل کا تقاضہ لاکھ سہی توہین تمنا کون کرے


ہونٹوں پہ ہنسی آنکھوں میں نمی ماتھے پہ شکن بل ابرو میں

اللہ ری طرز پرسش غم اب غم کا شکوہ کون کرے


مخمور فضا مستانہ گھٹا ساغر کی کھنک غنچوں کی چٹک

اب ایسے موسم میں ساقی اندیشۂ فردا کون کرے


کیوں اپنے نشیمن کو خود ہی اب آگ لگا دیں ہم نہ سعیدؔ

بجلی کی شکایت کون کرے آندھی کا شکوہ کون کرے


سعید شہیدی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...