Urdu Deccan

Tuesday, July 27, 2021

پرتپال سنگھ بیتاب

 یوم پیدائش 26 جولائی 1949


یہ زندگی سفر ہے ٹھہر ہی نہ جائیے

یہ بھی کہ بے خیال گزر ہی نہ جائیے


صحرائے ہول خیز میں رہئے لیے دیئے

ریگ رواں کے ساتھ بکھر ہی نہ جائیے


جب ڈوبنا ہی طے ہے ابھرنا محال ہے

دلدل ہے دل فریب اتر ہی نہ جائیے


ان راستوں میں رات بھٹکتی ہے بے سبب

ایسا بھی خوف کیا ہے جو گھر ہی نہ جائیے


اب کے سفر میں ہے یہ نیا ضابطہ جناب

جانا جدھر ہے آپ ادھر ہی نہ جائیے 


بیتاب موت کی یہ للک زندگی بھی ہے

یوں انتظار موت میں مر ہی نہ جائیے


پرتپال سنگھ بیتاب


آصف کمال

 یوم پیدائش 25 جولائی 1963


ایک وہ ہے کہاں سمجھتا ہے

غم ہمارا جہاں سمجھتا ہے


ہر نصیحت گراں سمجھتا ہے

دل تو دل کی زباں سمجھتا ہے


ایک طبقہ چراغ سحری سا

بس وہ اردو زباں سمجھتا ہے


لیڈروں کے حسین وعدوں کو

دیش کا نوجواں سمجھتا ہے


تشنگی کے غذاب کو آصف 

کوئی سوکھا کنواں سمجھتا ہے 


آصف کمال


فوزیہ رباب

 یوم پیدائش 25 جولائی 1988


ترا خیال کبھی چھو کے جب گزرتا ہے

بدن کے رنگ سے آنچل مرا مہکتا ہے


نئے زمانے نئے موسموں سے گونجتے ہیں

کوئی پرندہ مری چھت پہ بھی چہکتا ہے


وہ غفلتوں کا پرستار ہو گیا ہے اگر

 دعا کروں گی ، مرا دکھ خدا تو سنتا ہے


تمھارے ہجر میں کرتا ہے کون دل جوئی

 وہ کون ہے جو غموں کی رتیں بدلتا ہے


حسین ہو تو ادائیں بھی تم سے پھوٹیں گی

بڑے غرور میں ہو پر تمہارا بنتا ہے


تمہارے نین طلسمات سے بھرے ہوئے ہیں

انہی کی دید سے ہر غم ہمارا ٹلتا ہے


ہم ایسے لوگ نہیں ہر کسی پہ مر جائیں

ذرا بتا نا ! ہمیں کیا کوئی سمجھتا ہے


یہ تیرا غم ہے اسے خود سنبھال لے آ کر

بھٹکنے والا نہیں ہے مگر بھٹکتا ہے


رباب کافی نہیں کیا مری خوشی کے لیے

میں سوچتی ہوں وہ مجھ کو دکھائی دیتا ہے


فوزیہ رباب


خورشید عالم بسمل

 یوم پیدائش 25 جولائی 1957


دینِ اسلام میں یہ شانِ مساوی دیکھی

یہ غلاموں کو بھی سردار بنا دیتا ہے


جانگزیں قلب میں ایمان اگر ہو جاۓ

عام انسان کو جیدار بنا دیتا ہے


قتل کرنے کے ارادے سے جو آیا اسکو

عاشقِ سیّدِ ابرار ﷺ بنا دیتا ہے


دیکھ لے جو کوئی خورشید نبی کا چہرہ

اس کو آقا کا پرستار بنا دیتا ہے


خورشید عالم خورشید


عابده ارونی

 یوم پیدائش 25 جولائی 


ہم تیری محبت کا جو اقرار کریں گے

تا عمر کبھی اس سے نہ انکار کریں گے


یادوں کے نئے دیپ جلائے تری خاطر 

جب آۓ گا تُو راہوں کو گلزار کریں گے


بدلا نہ اصولوں کو نہ حالات کو بدلا

وہ آۓ تو جینا یہاں دشوار کریں گے


چہروں کو بھی دیکھو، کہ یہاں سب ہیں منافق

دھوکا کبھی دیں گے تو کبھی وار کریں گے


مخلص بھی بہت کم ہیں، زمانے میں اے صاحب! 

اور بات نبھانے کی تو دوچار کریں گے


الفت نہیں، الفت کے فقط دعوے بچے ہیں

جو کرتے ہیں الفت، وہ یہ اظہار کریں گے


وحشت سی مجھے ہوتی ہے دنیا سے ارونی! 

سب کھیل ہوس کا ہے، کہاں پیار کریں گے؟


 عابده ارونی


کاش قنوجی

 یوم پیدائش 25 جولائی


مرے خدا تو مجھے خود سے آشنا کر دے 

میں تیری یاد سے بھٹکوں مجھے فنا کر دے 


تمام عمر وہ میرے وصال کو ترسے 

تو اس کے دل کو جدائی سے آشنا کر دے 


وہ ہم کو دور سے دیکھے تڑپ کے رہ جائے 

ہمارے بیچ میں تو اتنا فاصلہ کر دے 


میں اس کے بعد سے تنہا ہوں ایک مدت سے 

کسی کو بھیج دے دنیا میں آسرا کر دے 


میں تیری یاد سے غافل نہ ہونے پاؤں کبھی 

تو اپنی ذات میں کچھ اتنا مبتلا کر دے 


بس ایک آخری خواہش ہے تیرے کاشفؔ کی 

تو اپنے پاس بلا لے اسے رہا کر دے 


کاش قنوجی


ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی

 یوم پیدائش 25 جولائی 


کسی کا عشق مرے دل میں ہوگیا پیدا

صدا اسی کی ہر اک جا سنائی دیتی ہے


کیا ہے عشق نے آنکھوں کو اسقدر روشن

کہ روشنی سی ہر اک سو دکھائی دیتی ہے


یہ سچا پیار ہے ہاں سچا پیار ہے میرا

یہی صدا مجھے دل سے سنائی دیتی ہے


نہ میری روح نہ میرا بدن خلاف اس کے

کہ مجھ پہ اس کی حکومت دکھائی دیتی ہے


سلوک ایک سا کرتی نہیں ہے الفت بھی

ملن کسی کو کسی کو جدائی دیتی ہے


نہ فکر کیجئے اس کی ولاء یہ دنیا ہے

یہ نیکیوں کے صلے میں برائی دیتی ہے


ڈاکٹر ولاء جمال العسیلی


طاہر سعود کرتپوری

 اس طرح ہم ہیں کسی کے واسطے

وزن جیسے، شاعری کے واسطے


میری قسمت میں اسےلکھ اس طرح

فاطمہ ؓجیسے علی ؓ کے واسطے


اک پڑوسی رات بھر روتا رہا

اک پڑوسی کی خوشی کے واسطے


کچھ دنوں کا فقر و فاقہ اور غم

کیا بھلا اک جنتی کے واسطے


جس نے بخشےہیں ہمیں پیارےرسولؐ

ساری تعریفیں اسی کے واسطے


باپ کے پاؤں دبائے عمر بھر،

ماں کے چہرےکی خوشی کےواسطے


طاہر سعود کرتپوری


صبا تابش

 جیسے ہوں نقب کاری کے آلات مرے ہاتھ

دستک سے الجھتے رہے کل رات مرے ہاتھ


قدموں سے لپٹ جائے فرات آج بھی میرے

دجلہ کے کناروں سے کریں بات مرے ہاتھ


موسیقیِ باراں ہو کہ ہو بات تمہاری

لکھتے ہیں بڑے شوق سے نغمات مرے ہاتھ


ہے جس کا فسوں دہر کی ہر شے میں نمایاں

اس کے بھی رقم کرتے ہیں جذبات مرے ہاتھ


کرتی رہیں عباس ؓ کا گریہ مری آنکھیں

لکھتے رہیں زینب ؓ کی فتوحات مرے ہاتھ


ہیں پاک سبھی آلِ نبی رجس سے تابش

تطہیر سے آیا ہے یہ اثبات مرے ہاتھ


صبا تابش


انیتا سونی

 یوم پیدائش 07 جولائی 


زمانہ سنگ ہے فریاد آئینہ میری

غلط کہوں تو زباں چھین لے خدا میری


ترا قصور ہے اس میں نہ ہے خطا میری

تری زمیں پہ جو برسی نہیں گھٹا میری


جہاں سے ترک تعلق کیا تھا تو نے کبھی

کھڑی ہوئی ہے اسی موڑ پر وفا میری


تم اس لباس دریدہ پہ طنز کرتے ہو

اسی لباس میں محفوظ ہے حیا میری


اس اک خیال سے دل بیٹھ بیٹھ جاتا ہے

ڈبو نہ دے کہیں کشتی کو ناخدا میری


انیتاؔ اس کو نہ آنا تھا وہ نہیں آیا

بلا بلا کے اسے تھک گئی صدا میری


انیتا سونی


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...