Urdu Deccan

Friday, October 1, 2021

ملک نوید

 یوم پیدائش 29 سپتمبر


عشق نے جوڑ دئے پہلی ملاقات کے ساتھ

چند مہتاب نما داغ مری ذات کے ساتھ


کون کھیلا تھا سمندر تیرے جذبات کے ساتھ

تو نے پربت بھی بہا ڈالے ہیں ذرات کے ساتھ


آؤ کچھ روز پسینے میں نہائیں ہم لوگ

آؤ سنگھرش کریں گردش حالات کے ساتھ


کچھ نئے دوست بنے راہ وفا میں لیکن

کچھ نئے خرچ جڑے پچھلے حسابات کے ساتھ


میں زمیں زاد فلک بوس اگر ہوں بھی تو ، ہے

میری مٹی کی مہک میرے خیالات کے ساتھ


ہاں وہی لوگ تو ہیں دیش کے سچے ہیرو

کھیلتے رہتے ہیں سرحد پہ جو خطرات کے ساتھ


ملک نوید


محسن بھوپالی

 یوم پیدائش 29 سپتمبر 1932


چاہت میں کیا دنیا داری عشق میں کیسی مجبوری

لوگوں کا کیا سمجھانے دو ان کی اپنی مجبوری


میں نے دل کی بات رکھی اور تو نے دنیا والوں کی

میری عرض بھی مجبوری تھی ان کا حکم بھی مجبوری


روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو

کچی مٹی تو مہکے گی ہے مٹی کی مجبوری


ذات کدے میں پہروں باتیں اور ملیں تو مہر بلب

جبر وقت نے بخشی ہم کو اب کے کیسی مجبوری


جب تک ہنستا گاتا موسم اپنا ہے سب اپنے ہیں

وقت پڑے تو یاد آ جاتی ہے مصنوعی مجبوری


اک آوارہ بادل سے کیوں میں نے سایہ مانگا تھا

میری بھی یہ نادانی تھی اس کی بھی تھی مجبوری


مدت گزری اک وعدے پر آج بھی قائم ہیں محسنؔ

ہم نے ساری عمر نباہی اپنی پہلی مجبوری


محسنؔ بھوپالی


ساحل اجمیری

 یوم پیدائش 29 سپتمبر 1929


ہم اپنی زندگی سے پیار نہ کرتے تو کیا کرتے

یہ نعمت ملتی ہے اک بار نہ کرتے تو کیا کرتے


محبت کا اگر بیوپار نہ کرتے تو کیا کرتے

ہے دنیا حسن کا بازار نہ کرتے تو کیا کرتے


محبت ایسی مجبوری میں اکثر ہو ہی جاتی ہے

تم اتنے پیارے ہو ہم پیار نہ کرتے تو کیا کرتے


برے لوگوں میں اچھائی کا عنصر بھی تو ہوتا ہے

حفاظت گر گلوں کی خار نہ کرتے تو کیا کرتے


ادھورے کام کرنے سے تو دل بھرتا نہیں پیارے

مکمل دل کے کاروبار نہ کرتے تو کیا کرتے


خدایا آپ کی رحمت کا رکھنا تھا بھرم ہم کو

گناہوں کا اگر انبار نہ کرتے تو کیا کرتے


دکھاوے کی یہ دنیا ہے دکھاوا کرنا پڑتا ہے

حسینان جہاں سنگار نہ کرتے تو کیا کرتے


خفا ہونا تو اک کروٹ بدلنے والی فطرت ہے

تو وہ کروٹ بدل کر پیار نہ کرتے تو کیا کرتے


کدورت دل میں ہو تو پھر محبت ہو نہیں سکتی

صفائی دل کی تھی درکار نہ کرتے تو کیا کرتے


بھروسہ ناؤ پہ رکھتے تو پھر ہم ڈولتے رہتے

رفاقت لہروں سے پتوار نہ کرتے تو کیا کرتے


ہمیں اس زندگی میں کچھ نہ کچھ تو کرنا تھا ساحلؔ

محبت بھی اگر اک بار نہ کرتے تو کیا کرتے


ساحل اجمیری


واحد کشمیری

 نظر ملا نا نظر چرانا کمال فن ہے

نگاہ قاتل ترا نشانہ کمال فن ہے


نزاکتیں ہیں روانیاں ہیں ترے بیاں میں

ہراک سخن کا جدا فسانہ کمال فن ہے


تمھارے آنے سے میرا ماضی و حال یکساں

نہ وہ زمانہ نہ یہ زمانہ کمال فن ہے


لکھی ہے رندوں نے اپنے ہاتھوں فرار اپنی

یوں اپنی مرضی شکست کھانا کمال فن ہے


کمال فن ہے لبوں پہ لفظوں کی بے قراری

حیا کی چوکھٹ پہ سر جھکانا کمال فن ہے


محبتوں میں گھلی ہوئی یہ نوازشیں بھی

ملال نو میں یوں منہ چڑھانا کمال فن ہے


سخاوتوں میں محبتوں میں بڑا سکوں ہے

عداوتوں میں قرار پانا کمال فن ہے


لگی ہے برسوں سے آگ دل میں جھلس رہا ہوں 

بھڑکتے شعلوں کو یوں چھپانا کمال فن ہے


واحدکشمیری


رانا التمش ماشی

 صبح سے شام بات ہوتی ہے 

اس کے پہلو میں رات ہوتی ہے 


یہ محبت وہ نیند ہے جس کو 

آنکھ کھلتے ہی مات ہوتی ہے 


ایسے پڑھتی ہے ذہن وہ جیسے 

ماہر - نفسیات ہوتی ہے 


جینے والا بھی جی نہیں پاتا 

جب کسی کی وفات ہوتی ہے 


تیرا ہونا تو خیر ہونا ہے 

تو نہ ہو کر بھی ساتھ ہوتی ہے


لوٹ لے کھل کے زندگی کے مزے 

چار دن کی حیات ہوتی ہے 


ہم وہ کافر ہیں جن کے جرموں کی

شاعری سے نجات ہوتی ہے 


نوجوانی کی عمر میں ماشی 

عشق پہلی ذکات ہوتی ہے 


رانا التمش ماشی


اقبال خورشید

 سبھی کے دل میں حیرانی رہے گی

محبت اپنی لاثانی رہے گی


محبت ہے تو پھر اظہار کر لو

سنو ورنہ , پشیمانی رہے گی


حقیقت ہے عیاں تُو جستجو کر

کٹھن کے بعد آسانی رہے گی


عبادت میں اگر یہ زیست گزری

سدا چہرے پہ تابانی رہے گی


سمندر بن چکی ہیں اب یہ آنکھیں

تری یادوں کی ظغیانی رہے گی


امیرِ شہر کی خورشید دیکھو

قیامت میں نہ من مانی رہے گی


 اقبال خورشید


انجم رومانی

 یوم پیدائش 28 سپتمبر 1920


کچھ اجنبی سے لوگ تھے کچھ اجنبی سے ہم

دنیا میں ہو نہ پائے شناسا کسی سے ہم


دیتے نہیں سجھائی جو دنیا کے خط و خال

آئے ہیں تیرگی میں مگر روشنی سے ہم


یاں تو ہر اک قدم پہ خلل ہے حواس کا

اے خضر باز آئے تری ہم رہی سے ہم


دیتے ہیں لوگ آج اسے شاعری کا نام

پڑھتے تھے لوح دل پہ کچھ آشفتگی سے ہم


رہتی ہے انجمؔ ایک زمانے سے گفتگو

کرتے نہیں کلام بظاہر کسی سے ہم


انجم رومانی


ظفر اقبال

 یوم پیدائش 27 سپتمبر 1933


خامشی اچھی نہیں انکار ہونا چاہئے

یہ تماشا اب سر بازار ہونا چاہئے


خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی

پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہئے


ڈوب کر مرنا بھی اسلوب محبت ہو تو ہو

وہ جو دریا ہے تو اس کو پار ہونا چاہئے


اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات

جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہئے


بات پوری ہے ادھوری چاہئے اے جان جاں

کام آساں ہے اسے دشوار ہونا چاہئے


دوستی کے نام پر کیجے نہ کیونکر دشمنی

کچھ نہ کچھ آخر طریق کار ہونا چاہئے


جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفرؔ

آدمی کو صاحب کردار ہونا چاہئے


ظفر اقبال


شمشاد شاد

 شوق سے قتل کرو کوکھ میں بیٹی کو مگر

پھر نہ کہنا کہ زمیں پر کوئی عورت نہ رہی


شمشاد شاؔد


Sunday, September 26, 2021

اعزاز احمد آذر

 یوم پیدائش 25 سپتمبر 1942


ان اجڑی بستیوں کا کوئی تو نشاں رہے 

چولھے جلیں کہ گھر ہی جلیں پر دھواں رہے 


نیرو نے بنسری کی نئی تان چھیڑ دی 

اب روم کا نصیب فقط داستاں رہے 


پانی سمندروں کا نہ چھلنی سے ماپیے 

ایسا نہ ہو کہ سارا کیا رائیگاں رہے 


مجھ کو سپرد خاک کرو اس دعا کے ساتھ 

آنگن میں پھول کھلتے رہیں اور مکاں رہے 


کاٹی ہے عمر رات کی پہنائیوں کے ساتھ 

ہم شہر بے چراغ میں اے بے کساں رہے 


آذرؔ ہر ایک گام پہ کاٹا ہے سنگ جبر 

ہاتھوں میں تیشہ سامنے کوہ گراں رہے


اعزاز احمد آذر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...