Urdu Deccan

Friday, October 1, 2021

آزاد حسین آزاد

 یوم پیدائش 01 اکتوبر


راستے ہیں بڑے سنسان کہاں جاتا ہے 

رات گہری ہے مری مان کہاں جاتا ہے


ریل کے شور مچاتے ہوئے انجن کے طفیل

رونے والوں کی طرف دھیان کہاں جاتا ہے 


تیرے مصلوب گداگر نے یہیں رہنا ہے

پھٹ بھی جائے تو،،،، ،،گریبان کہاں جاتا ہے


آخرِ عمر بھی اس وصل کی خواہش پہ نثار

جان جاتی ہے پہ ارمان کہاں جاتا ہے


کون خاموش طبیعت سا نکل آتا ہے 

تجھ سے مل کر مرا ہیجان ، کہاں جاتا ہے


ایک آواز کے ہانکے ہوئے، ہم محوِ سفر 

دیکھیے لے کے یہ وجدان کہاں جاتا ہے 


اس سرائے سے نکل جانے کے رستے کم ہیں

دل میں ٹہرا ہوا مہمان کہاں جاتا ہے


بعد مرنے کے کہاں جاتی ہیں روحیں آزاد

کاش معلوم ہو انسان کہاں جاتا ہے


آزاد حسین آزاد


زاہد فخری

 یوم پیدائش 01 اکتوبر 1954


محبت کے سفر میں کوئی بھی رستا نہیں دیتا

زمیں واقف نہیں بنتی فلک سایا نہیں دیتا


خوشی اور دکھ کے موسم سب کے اپنے اپنے ہوتے ہیں

کسی کو اپنے حصے کا کوئی لمحہ نہیں دیتا


نہ جانے کون ہوتے ہیں جو بازو تھام لیتے ہیں

مصیبت میں سہارا کوئی بھی اپنا نہیں دیتا


اداسی جس کے دل میں ہو اسی کی نیند اڑتی ہے

کسی کو اپنی آنکھوں سے کوئی سپنا نہیں دیتا


اٹھانا خود ہی پڑتا ہے تھکا ٹوٹا بدن فخریؔ

کہ جب تک سانس چلتی ہے کوئی کندھا نہیں دیتا


زاہد فخری


حنیف ترین

 یوم پیدائش 01 اکتوبر 1951


خزاں میں اوڑھ کے قول و قرار کا موسم

بہار ڈھونڈ رہی ہے بہار کا موسم


وو میرے ساتھ نہیں ہیں تو دل کے صحرا پر

سمے بکھیر رہا ہے بہار کا موسم


فریب خود کو نا دے گا تو اور کیا دے گا

نا راس آئے جسے اعتبار کا موسم


تمہارے قرب کی مدھم سی اک حرارت سے

ہے ڈھیر راکھ تلے انتظار کا موسم


حنیف ترین


یوم پیدائش 01 اکتوبر 1951


غالب ہے مرا حوصلہ ، مغلوب نہیں ہوں

 ہےجرم ضعیفی، پہ میں محجوب نہیں ہوں

 

ہیں سخت چٹانوں کی طر ح میرے ارادے

تم گھول کے پی جاؤ وہ مشروب نہیں ہوں


ہوں بحرِ انا حسن کی امواج میں غلطاں

لذت کے سرابوں سے میں منصوب نہیں ہوں


لوٹے ہیں مزے سکر کے بھی خود میں اتر کر

ہُو، حق، میں جو کھویا ہو وہ مجذوب نہیں ہوں


طالب نئے خوابوں کا رہا ہوں میں ہمیشہ

میں کہنہ روایات کو مطلوب نہیں ہوں


کل جس کی مورّ خ نئی تار یخ لکھے گا

کیا وہ میں حنیف آج کا مکتوب نہیں ہوں

 

حنیف ترین


شکیب جلالی

 یوم پیدائش 01 اکتوبر 1934


آ کے پتھر تو مرے صحن میں دو چار گرے

جتنے اس پیڑ کے پھل تھے پس دیوار گرے


ایسی دہشت تھی فضاؤں میں کھلے پانی کی

آنکھ جھپکی بھی نہیں ہاتھ سے پتوار گرے


مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایۂ دیوار پہ دیوار گرے


تیرگی چھوڑ گئے دل میں اجالے کے خطوط

یہ ستارے مرے گھر ٹوٹ کے بے کار گرے


کیا ہوا ہاتھ میں تلوار لیے پھرتی تھی

کیوں مجھے ڈھال بنانے کو یہ چھتنار گرے


دیکھ کر اپنے در و بام لرز جاتا ہوں

مرے ہم سایے میں جب بھی کوئی دیوار گرے


وقت کی ڈور خدا جانے کہاں سے ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے


ہم سے ٹکرا گئی خود بڑھ کے اندھیرے کی چٹان

ہم سنبھل کر جو بہت چلتے تھے ناچار گرے


کیا کہوں دیدۂ تر یہ تو مرا چہرہ ہے

سنگ کٹ جاتے ہیں بارش کی جہاں دھار گرے


ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے


وہ تجلی کی شعاعیں تھیں کہ جلتے ہوئے پر

آئنے ٹوٹ گئے آئنہ بردار گرے


دیکھتے کیوں ہو شکیبؔ اتنی بلندی کی طرف

نہ اٹھایا کرو سر کو کہ یہ دستار گرے


شکیب جلالی


اختر انصاری

 یوم پیدائش 01 اکتوبر 1909


سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا 

اف یہ بد مست مے کدہ میرا 


نا رسائی پہ ناز ہے جس کو 

ہائے وہ شوق نا رسا میرا 


دل غم دیدہ پر خدا کی مار 

سینہ آہوں سے چھل گیا میرا 


یاد کے تند و تیز جھونکے سے 

آج ہر داغ جل اٹھا میرا 


یاد ماضی عذاب ہے یا رب 

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا 


منت چرخ سے بری ہوں میں 

نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا 


ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ 

پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا 


اختر انصاری


مجروح سلطانپوری

 یوم پیدائش 01 اکتوبر 1919


جب ہوا عرفاں تو غم آرام جاں بنتا گیا

سوز جاناں دل میں سوز دیگراں بنتا گیا


رفتہ رفتہ منقلب ہوتی گئی رسم چمن

دھیرے دھیرے نغمۂ دل بھی فغاں بنتا گیا


میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا


میں تو جب جانوں کہ بھر دے ساغر ہر خاص و عام

یوں تو جو آیا وہی پیر مغاں بنتا گیا


جس طرف بھی چل پڑے ہم آبلہ پایان شوق

خار سے گل اور گل سے گلستاں بنتا گیا


شرح غم تو مختصر ہوتی گئی اس کے حضور

لفظ جو منہ سے نہ نکلا داستاں بنتا گیا


دہر میں مجروحؔ کوئی جاوداں مضموں کہاں

میں جسے چھوتا گیا وہ جاوداں بنتا گیا


مجروح سلطانپوری


اندرا ورما

 یوم پیدائش 01 اکتوبر 1940


کاش وہ پہلی محبت کے زمانے آتے

چاند سے لوگ مرا چاند سجانے آتے


رقص کرتی ہوئی پھر باد بہاراں آتی

پھول لے کر وہ مجھے خود ہی بلانے آتے


ان کی تحریر میں الفاظ وہی سب ہوتے

یوں بھی ہوتا کہ کبھی خط بھی پرانے آتے


ان کے ہاتھوں میں کبھی پیار کا پرچم ہوتا

میرے روٹھے ہوئے جذبات منانے آتے


بارشوں میں وہ دھنک ایسی نکلتی اب کے

جس سے موسم میں وہی رنگ سہانے آتے


وہ بہاروں کا سماں اور وہ گل پوش چمن

ایسے ماحول میں وہ دل ہی دکھانے آتے


ہر طرف دیکھ رہے ہیں مرے ہم عمر خیال

راہ تکتی ہوئی آنکھوں کو سلانے آتے


اندرا ورما


پرویز شاہدی

 یوم پیدائش 30 سپتمبر 1910


خاموشی بحران صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ

سناٹا تک چیخ رہا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ


ترک تعلق کر کے زباں سے دل کا جینا مشکل ہے

یہ کیسا آہنگ وفا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ


دل والوں کی خاموشی ہی بار سماعت ہوتی ہے

بے آوازی کرب فضا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ


بھیس بدلتی آوازیں ہی شام و سحر کہلاتی ہے

وقت کا دم کیا ٹوٹ گیا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ


سکتے تک اب آ پہنچا ہے بڑھتے بڑھتے کرب سکوت

ہونٹوں پر کیا وقت پڑا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ


کیسی نرمی کیسی سختی لہجے کی کیا بات کریں

فکر ہی اب غم کردہ صدا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ


جب تک راہ وفا تھی سیدھی زور بیاں تھا عیش سفر

شاید کوئی موڑ آیا ہے تم بھی چپ ہو ہم بھی چپ


پرویز شاہدی


صہبا اختر

 یوم پیدائش 30 سپتمبر 1931


چہرے شادابی سے عاری آنکھیں نور سے خالی ہیں

کس کے آگے ہاتھ بڑھاؤں سارے ہاتھ سوالی ہیں


مجھ سے کس نے عشق کیا ہے کون مرا محبوب ہوا

میرے سب افسانے جھوٹے سارے شعر خیالی ہیں


چاند کا کام چمکتے رہنا اس ظالم سے کیا کہنا

کس کے گھر میں چاندنی چھٹکی کس کی راتیں کالی ہیں


صہباؔ اس کوچے میں نہ جانا شاید پتھر بن جاؤ

دیکھو اس ساحر کی گلیاں جادو کرنے والی ہیں


صہبا اختر


شیر بہادر اختر

 دنیا کی چاہتوں میں رہے مبتلا بہت 

اب آخرت کے خوف نے ہم کو بدل دیا 


شیر بہادر اختر


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...