Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

زاہدہ حنا

 یوم پیدائش 05 اکتوبر 1947


جانتی ہوں کہ وہ خفا بھی نہیں 

دل کسی طور مانتا بھی نہیں 


کیا وفا و جفا کی بات کریں 

درمیاں اب تو کچھ رہا بھی نہیں 


درد وہ بھی سہا ہے تیرے لیے 

میری قسمت میں جو لکھا بھی نہیں 


ہر تمنا سراب بنتی رہی 

ان سرابوں کی انتہا بھی نہیں 


ہاں چراغاں کی کیفیت تھی کبھی 

اب تو پلکوں پہ اک دیا بھی نہیں 


دل کو اب تک یقین آ نہ سکا 

یوں نہیں ہے کہ وہ ملا بھی نہیں 


وقت اتنا گزر چکا ہے حناؔ 

جانے والے سے اب گلہ بھی نہیں


زاہدہ حنا


سجاد باقر رضوی

 یوم پیدائش 04 اکتوبر 1928


دل کی بساط پہ شاہ پیادے کتنی بار اتارو گے

اس بستی میں سب شاطر ہیں تم ہر بازی ہارو گے


پریم پجاری مندر مندر دل کی کتھا کیوں گاتے ہو

بت سارے پتھر ہیں پیارے سر پتھر سے مارو گے


دل میں کھینچ کے اس کی صورت آج تو خوش خوش آئے ہو

کل سے اس میں رنگ بھرو گے کل سے نقش ابھارو گے


سارے دن تو اس کی گلی میں آتے جاتے گزری ہے

اب بولو اب رات ہوئی ہے کیسے رات گزارو گے


پیار کی آنکھیں مند جائیں گی دل کا دیا بجھ جائے گا

کب تک لہو جلاؤ گے تم کب تک کاجل پارو گے


جس کو داتا مان کے تم نے بھیک لگن کی مانگی ہے

اس نے بھی جو سلام کیا تو دامن کہاں پسارو گے


باقرؔ صاحب مہا کوی ہو بڑے گرو کہلاتے ہو

اپنا دکھ سکھ بھول گئے تو کس کا خال سنوارو گے


کلی کلی اشکوں کی لڑیاں پھول پھول یہ کومل گیت

کس کی سیج سجائی باقرؔ کس کا روپ نکھاروگے


سجاد باقر رضوی


بشیر سیفی

 یوم پیدائش 03 اکتوبر 1948


ایسا لگتا ہے مخالف ہے خدائی میری

کوئی کرتا ہی نہیں کھل کے برائی میری


مجھ میں مدفون بڑے شہر معانی تھے مگر

دور تک کر نہ سکا وقت خدائی میری


بے صدا شہر تھا خاموش تھے گلیوں کے مکیں

ایک مدت مجھے آواز نہ آئی میری


خیر خواہی کا رہا یوں تو سبھی کو دعویٰ

چاہتا بھی تو کوئی دل سے بھلائی میری


شب کی دہلیز پہ قزاق ضرورت تو نہیں

چھین لیتا ہے جو دن بھر کی کمائی میری


کچھ مرے علم نے بھی مجھ کو فضیلت بخشی

فن سے نسبت نے بھی توقیر بڑھائی میری


مجھ کو مجھ تک ہی نہ محدود سمجھنا سیفیؔ

لا مکاں سے بھی پرے تک ہے رسائی میری


بشیر سیفی


اکرام خاور

 یوم پیدائش 02 اکتوبر 1960

نظم بساط رقص


مجھے لکھنا تھا سرشاری 

مجھے لکھنا تھا دل داری 

مجھے لکھنا تھا اپنا حلف نامہ 

اور بیان استغاثہ 

بادشاہ وقت کے مغرور ایوان عدالت میں 

امڈتی خلق کی موجودگی میں 

واردات قتل خوباں کے حقائق 

اور بیان خلق برہم 


میں قاصد تھا 

غلاموں کا فرستادہ 

مرے ہونے میں مضمر تھی خرابی 

جملہ امکانات مہلک 

اک بھری بندوق 


میں شاعر تھا 

مجھے اعلان کرنا تھا 

مرے اعلان پر ہونی تھی صف بندی 

حساب خوں بہا 

بے باک ہونا تھا 

رباب زندگی پر 

آرزو کا المیہ گانا 


علی الاعلان 

چوراہوں پہ 

بے خود ہونا 

گانا 

رقص کرنا 

اور مر جانا 

مرا منصب مقرر تھا


اکرام خاور


Wednesday, October 20, 2021

رحمت الٰہی برق اعظمی

 یوم وفات 03 اکتوبر 1983


بہت روشن ہم اپنا نیر تقدیر دیکھیں گے

جب آغوش تصور میں تری تصویر دیکھیں گے


حریم دل کے گرداگرد وہ تنویر دیکھیں گے

جلال مہر انور کو بھی بے توقیر دیکھیں گے


نگاہ دل سے جس دن اسوۂ شبیر دیکھیں گے

خلیل اللہ اپنے خواب کی تعبیر دیکھیں گے


جنون عشق کے الزام میں اے خوش نوا قمری

گلے میں تو نے دیکھا طوق ہم زنجیر دیکھیں گے


الم ہو رنج ہو غم ہو بلا ہو شادمانی ہو

جو تو نے لکھ دیا اے کاتب تقدیر دیکھیں گے


خدا کی راہ میں سب کچھ لٹا کر بیٹھنے والے

خدا کی کل خدائی اپنی ہی جاگیر دیکھیں گے


مرا اعمال نامہ دھل گیا اشک ندامت سے

فرشتے کیا کریں گے کچھ نہ جب تحریر دیکھیں گے


ستم گاروں کو مل جائے گا اپنے ظلم کا بدلہ

کبھی آہ غریباں کو نہ بے تاثیر دیکھیں گے


محبت ہی بنا اے برقؔ ہے تخلیق عالم کی

محبت ہی کو ہر عالم میں عالم گیر دیکھیں گے


رحمت الٰہی برق اعظمی


بشارت گِل

 یوم پیدائش 02 اکتوبر 1975


جو بھی دِل چاہے وہ جناب کریں

اِک ذرا ہم سے اجتناب کریں


دِل تجھے تنہا پا نہیں سکتا 

آ اِسے مِل کے کامیاب کریں


چاند کا اعتماد جاتا ہے 

آپ چہرہ نہ بے نقاب کریں


کچھ خطائیں یا پھر ہزاروں غم

بول کِس چیز کا حساب کریں


بشارت گِل


منظور احمد

 یوم پیدائش 02 اکتوبر 1958


حسرت ہے جن کےدل میں انہیں خسروی ملے

ہم کو بس ایک چشمِ کرم آپ کی ملے


فرقت کو میری دیکھ کے ائے ہنسنےوالے سن

تجھ کوبھی غم کی شام ملے بےرخی ملے


مدت کےبعدوصل کی خوشیاں ملیں مجھے

کہدو غمِ حیات سے وہ پھرکبھی ملے


کیجئےنہ شورو غل مری تربت پہ آکےآپ

زیرِ زمیں تو مجھ کو ذراخامشی ملے


انسان کس جہان میں بستےہیں تم بتاؤ

ہم کوتو جتنےلوگ ملے آدمی ملے


منظؔورلکھ رہاہوں میں عرصہ دراز سے

اللہ کرےسخن میں مجھے پختگی ملے


منظؔوراحمد 


شیر بہادر اختر

 یوم پیدائش 02 اکتوبر 1946


دل ہے زندہ تو شادمانی لکھ

دل محبت کی راجدھانی لکھ


پیش آیئں اگر محبت سے

آگ ہوجائے پانی پانی لکھ


ہر مصیبت میں فن بھی جینے کا

خود سکھاتی ہے زندگانی لکھ


روز محشر سوال سے پہلے

خرچ کی ہے کہاں جوانی لکھ


بعد از کفر سانس ہے جاری

کتنی رب کی ہے مہربانی لکھ


بھول بیٹھا سبق اخوت کا

دور ماضی کی حق بیانی لکھ


ٹک نہیں سکتا سامنے باطل

نعرہء حق کی ترجمانی لکھ


دل میں اختر سمائ ہے دنیا

جبکہ ہر شئے یہاں ہے فانی لکھ


شیر بہادر اختر


(قاضی ملک نوید صاحب کی زمین)


بدھ پرکاش گپتا جوہر دیوبندی

 یوم پیدائش 02 اکٹوبر 1912


مست ہے وہ حُسن پر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی

آئینہ پر ہے نظر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


آپ نے روئے منور سے اُلٹ دی کیا نقاب

زرد ہیں شمس و قمر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


اضطرابِ دل کا عالم ہے وہی بعدِ فنا

ہے لحد زیر و زبر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


آپ کیا آئے چمن میں آگئی فصلِ بہار

جھومتا ہے ہر شجر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


چاک دامن خاک بر سر پا برہنہ دل فگار

پھر رہا ہوں در بدر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


اُن کی بزمِ ناز میں ہے نغمہ زن سازِ طرب

ہے یہاں سوزِ جگر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


کم ستاروں نہیں یہ آپ کے نقشِ قدم

کہکشاں ہے رہگزر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


مار ڈالے گی مجھے دوڑاکے یہ عمرِ رواں

ہوں میں سر گرمِ سفر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


آپ کے پائے نگاریں جب سے آئے ہیں یہاں

ہے منور سارا گھر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


کم نہیں محرابِ کعبہ سے ترے ابرو کا خم

جُھک رہے ہیں سر پہ سر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


اُٹھ نہ جائے نوح کا طوفاں اے جوہرؔ کہیں

جوش پر ہے چشمِ تر آٹھوں پہر چونسٹھ گھڑی


بُدھ پرکاش گُپتا جوہر دیوبندی


وجے شرما


یوم پیدائش 01 اکتوبر


باتوں باتوں میں ہی عنوان بدل جاتے ہیں 

کتنی رفتار سے انسان بدل جاتے ہیں 


چوریاں ہو نہیں پاتیں تو یہی ہوتا ہے 

اپنی بستی کے نگہبان بدل جاتے ہیں 


کوئی منزل ہی نہیں ٹھہری مرادیں جس پر 

وقت بدلے بھی تو ارمان بدل جاتے ہیں 


اس کے دامن سے امیدوں کے گلوں کو چن کر 

زندگی کے سبھی امکان بدل جاتے ہیں


وجے شرما

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...