Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

سید غلام مجتبیٰ

 یوم پیدائش 8 اکتوبر 1957

نعتِ رسولﷺ     


جانبِ طیبہ رُوٸے محبَت

پیشِ نظر ہے اُنﷺ کی عظمت


اپنے لیے کچھ بھی نہ مانگا

سب کچھ لے لے میری اٰمَت


ایک تمنَا ، ایک طلب ہے

گھیر لے مجھ کو اُنﷺ کی رحمت


اُنﷺ کا چہرہ، میری نگاہیں

دل میں ہے بس ایک ہی حسرت


جان فدا ہو اُن ﷺ پر میری

مجھ کو بھی یہ ملے سعادت


یہی تخیَل راحتِ جاں ہے

دستِ عطا ہے اُنﷺ کی عادت


میری یہ اوقات کہاں تھی

سر پہ اُنﷺ کا دستِ شفقت


سید غلام مجتبٰی


شاہد جان

 یوم پیدائش 8 اکتوبر 


دل کی کیا بات ہے منظر ہی نیا ہو جائے

آپؐ کے ذکر سے صر صر بھی صبا ہو جائے


آپؐ کے عشق کی تاثیر ہے پارس جیسی

یہ جو چھو جائے تو کھوٹا بھی کھرا ہو جائے


عشق ہو دل میں مرے شیخِ محقق جیسا

نعت میں جذبہُِ حسان عطا ہو جائے


عکس ہے گنبدِ خضرا کا جو ہے آنکھ ہری

کاش ایسا ہو مرا دل بھی ہرا ہو جاٸے


کاش میں عشقِ محمدؐ میں فنا ہو جاؤں

ایسا ہو جائے تو پھر میری بقا ہو جائے


اشک ہوتے ہیں رواں صبر کے خیمے کھولو

دل کی دھڑکن سے کہو بانگِ درا ہو جائے


پاک ہو جائے وہ پھر صورتِ شبنم شاہد

اک گنہگار اگر نعت سرا ہو جائے


شاہد جان 


منور حسن

 یوم پیدائش 8 اکتوبر


یوم پیدائش 08 اکتوبر 1963


ایک سانچے میں خود کو ڈھالا اور

رنگ صورت نے پھر نکالا اور


مفت کی روٹیاں بہت ہیں مگر

مجھ کو درکار ہے نوالہ اور


بند تھے راستے مگر ۔۔۔۔اس دن

میں نے اک راستا نکالا اور


سبز منظر کو آنکھ میں رکھ کر

اپنے صحرا کو پھر کھنگالا اور


رنگ کپڑوں میں کھل رہا ہے بہت

سج رہی ہے گلے میں مالا۔۔ اور


شام اپنی ہی دھند میں لپٹی ہے

میرے دل میں ہے کوئی پالا اور


میرے دیوار و در تو گروی ہیں

میرے گھر پر ہے ایک تالا اور


خاک ہیں خاک کا تعارف کیا

کچھ ترا ۔۔۔زندگی حوالہ اور


خود کو ڈالا ہے اک خسارے میں

میں نے خود چل کے ایک چالا اور


بند جس دن سے ہے یہ دروازہ

لگ گیا میری چھت پہ جالا اور


منور حسین


تسنیم کوثر

 ہم لوگ تیرے شہر میں خوشبو کی طرح ہیں 

محسوس تو ہوتے ہیں دکھائی نہیں دیتے


تسنیم کوثر


 #اردودکن #urdudeccan


#urdu

خوجہ حنیف احمد تمنا

 یوم پیدائش 07 اکتوبر 


جنونِ عشق تھا یا حُسنِ جاں کا جادو تھا

مرا شعور بھی پابندِ چشمِ آہُو تھا


وبالِ جاں تھی سرِ دشتِ مہر تشنہ لبی

نہ تیری زلف نہ آنچل نہ تیرا پہلو تھا


تھےکتنےخون کےدھبےبھی اُسکےدامن پر

وہ جس کے ہاتھ میں انصاف کا ترازو تھا


جب اُس کو سوچ کے ماضی کا آئینہ دیکھا

شکستہ چاہ تھی اِک آس تھی اِک آنسو تھا


خواجہ حنیف احمد تمنا


نازیہ حسن

 یوم پیدائش 07 اکتوبر


محبت میں ہستی لٹانے کے بعد

سنبھل ہی گئے لڑکھڑانے کے بعد


نہ جانے کہاں یہ خوشی چھپ گئی

فقط اک جھلک ہی دکھانے کے بعد


غموں سے ہمارا ہے دامن بھرا

فقط ایک پل مسکرانے کے بعد


یہ اشکوں کے موتی چھپاتے ہو کیوں

مرے شعر تم گنگنانے کے بعد


سکوں پا گیا ہے دلِ مضطرب

دمِ آخریں پھڑپھڑانے کے بعد


سنادوں تمہیں حالِ دل میں اگر

ندامت ہی ہوگی سنانے کے بعد


ستم گردشِ وقت کا دیکھیے

"ملے آپ ہم اک زمانے کے بعد"


ہے قسمت میں گر تیرگی نازیہ

رہے گی وہ دل بھی جلانے کے بع


نازیہ حسین


ایڈوکیٹ متین طالب

 خوشبو جو تخیل میں ہے فن میں بھی وہی ہے

دل میں جو ہمارے ہے سخن میں بھی وہی ہے


محسوس ہو خطرہ جو شناور کو بھنور میں 

اے یار ! ترے چاہِ ذقن میں بھی وہی ہے


تہذیب پتہ چلتی ہے انساں کی زباں سے

ویسے تو میاں مشک ختن میں بھی وہی ہے


معیار پہ اترا ہے زمانے کے جو سکہ

قیمت بھی اسی کی ہے چلن میں بھی وہی ہے


گر آنکھ سے ٹپکے تو مزہ اور ہی کچھ ہے

کہنے کو لہو پورے بدن میں بھی وہی ہے


عاشق کو جو محبوب کی زلفوں میں ہے راحت 

منصور کو دار اور رسن میں بھی وہی ہے


قصہ ہے شبِ ہجر کا تکیے کی نمی میں 

 بکھرے ہوئے بستر کی شکن میں بھی وہی ہے


اسلاف سے بیباک طبیعت ملی ہم کو

اور جرأت اظہار ، سخن میں بھی وہی ہے


محسوس گھٹن ہوتی ہے پردیس میں مجھ کو

جبکہ میاں ! ماحول وطن میں بھی وہی ہے


آئینے کو مکاری نہیں آتی ہے یارو!

طالبؔ کی زباں پر ہے جو ، من میں بھی وہی ہے


ایڈوکیٹ متین طالبؔ


سوپنل تیواری

 یوم پیدائش 06 اکتوبر 1984


عشق کی اک رنگین صدا پر برسے رنگ 

رنگ ہو مجنوں اور لیلیٰ پر برسے رنگ 


کب تک چنری پر ہی ظلم ہوں رنگوں کے 

رنگریزہ تیری بھی قبا پر برسے رنگ 


خواب بھریں تری آنکھیں میری آنکھوں میں 

ایک گھٹا سے ایک گھٹا پر برسے رنگ 


اک سترنگی خوشبو اوڑھ کے نکلے تو 

اس بے رنگ اداس ہوا پر برسے رنگ 


اے دیوی رخسار پہ تیرے رنگ لگے 

جوگی کی المست جٹا پر برسے رنگ 


میرے عناصر خاک نہ ہوں بس رنگ بنیں 

اور جنگل صحرا دریا پر برسے رنگ 


سورج اپنے پر جھٹکے اور صبح اڑے 

نیند نہائی اس دنیا پر برسے رنگ


سوپنل تیواری


مقصود احمد شامی

 یوم پیدائش 06 اکتوبر 1968


تعلق ہے بہت گہرا ہمارا

نہ ٹوٹے گا کبھی رشتہ ہمارا


بنا تیرے نہ جی پائیں گے ہم تو 

تری سانسوں سے ہے ناطہ ہمارا


ملی ہے تیرگی سے روشنی جو 

تری آنکھوں میں ہے چشمہ ہمارا


 سلگتی جو رہی ہے شمع شب بھر

بیاں کرتی رہی نوحہ ہمارا


 تمہیں اب ساری خوشیاں ہوں مبارک

ہمیں بھی راس ہو صحرا ہمارا


ہے عادت جاگنے کی تجھکو شامی

تری آنکھوں میں ہے چہرہ ہمارا


مقصود احمد شامی


ایمل ہاشمی مائل

 یوم پیدائش 06 اکتوبر 1964


میں بازیگر ہوں یہ کرتب سر بازار کرتا ہوں 

کہ چھو کر سنگریزوں کو دُرِ شہوار کرتا ہوں


کبھی بیڑے بناتا ہوں کبھی پتوار کرتا ہوں 

تری یادوں سے یوں غم کے سمندر پار کر تا ہوں 


کھلی آنکھوں سے بھی آتا نہیں ہے تو نظر سب کو

میں اپنی بند آنکھوں سے ترا دیدار کرتا ہوں 


تری توصیف میں رطب اللساں رہتا ہوں میں ہر دم

میں تیرا تذکرہ اک سانس میں سو بار کرتا ہوں 


غزل کہتا ہوں کوئی مرثیہ خوانی نہیں کرتا 

برا کیا ہے جو توصیفِ لب و رخسار کرتا ہوں


عجب تاثیر رکھتی ہے مری شیریں بیانی بھی

میں مشکل میں اسی سے راستے ہموار کرتا ہوں 


ہنر اک معجزاتی ہے مرے اندر میاں مائل 

اسی سے میں خیال و خواب کو اشعار کرتا ہوں 


ایمل ہاشمی مائل


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...