Urdu Deccan

Sunday, October 31, 2021

ساجد محمود رانا

 یوم پیدائش 10 اکتوبر


نگینے یونہی مٹی میں ملا کر پھینک دیتے ہیں

ہم اپنے شعر لوگوں کو سنا کر پھینک دیتے 


رعایا تو فقط غم سے یہاں دوچار ہوتی ہے

یہاں حاکم خوشی ہر اک دکھا کر پھینک دیتے ہیں


ستم تو دیکھ اس شہرِ سخن میں ہم ہوئے پیدا

جہاں دیوان چولہوں میں جلا کر پھینک دیتے ہیں 


وہی محبوب جو دل میں بٹھا کر تم کو رکھتے ہیں 

ّوہی محبوب اک دن پھر اٹھا کر پھینک دیتے

 ہیں


یونہی تو بن نہیں جاتے پہاڑوں کے سلاسل بھی

زمیں کی گود کو بنجر بنا کر پھینک دیتے ہیں


گل و گلزار ہوتے ہیں نہیں ہوتے خدا جانے

مگر دہقان بیجوں کو اٹھا کر پھینک دیتے ہیں


جو پیلے زرد پتے بوجھ بن جائیں انہیں ساجد

شجر کمزور شاخوں سے ہلا کر پھینک دیتے ہیں


ساجد محمود رانا


معین شاداب

 یوم پیدائش 10 اکتوبر


کس احتیاط سے سپنے سجانے پڑتے ہیں 

یہ سنگ ریزے پلک سے اٹھانے پڑتے ہیں 


بہت سے درد تو ہم بانٹ بھی نہیں سکتے 

بہت سے بوجھ اکیلے اٹھانے پڑتے ہیں 


یہ بات اس سے پتا کر جو عشق جانتا ہو 

پلوں کی راہ میں کتنے زمانے پڑتے ہیں 


ہر ایک پیڑ کا سایا نہیں ملا کرتا 

بلا غرض بھی تو پودے لگانے پڑتے ہیں 


کسی کو دل سے بھلانے میں دیر لگتی ہے 

یہ کپڑے کمرے کے اندر سکھانے پڑتے ہیں 


کہاں سے لاؤ گے تم اس قدر جبین نیاز 

قدم قدم پہ یہاں آستانے پڑتے ہیں


معین شاداب


ذکیہ شیخ مینا

 یوم پیدائش 10 اکتوبر


بند آنکھوں میں اتر میری نظر سے پہلے

بت تخیل میں بنالوں گی سحر سے پہلے


آتش عشق جگا دہکا سا شعلہ بن جا 

لو ضروری ہے بہت رقص شرر سے پہلے


یہ شکستہ پری پہنچائے گی تا حد افق

عزم ہو راسخ اگر وقت سفر سے پہلے


راستہ خود ہی بنا لے گا یہ رفتار کا جوش

گام اولی کا تذبذب ہے ڈگر سے پہلے


پرچم نور لئے تیرگئ شب سے لڑے

ہنس کے بجھتے ہیں دیے نور سحر سے پہلے 


بس تکبر نے ہی ابلیس کو ملعون کیا 

رب کا تھا خاص وہ تکفیر بشر سے پہلے


مینا آداب محبت سے سجا روح ونظر

اپنی ہستی کو مٹا پیش نظر سے پہلے


ذکیہ شیخ مینا


نثار ترابی

 یوم پیدائش 10 اکتوبر 1961


ابر صحرائے جاں تلاش کرے

پیاس اپنا جہاں تلاش کرے


ہر عقیدت کی ایک منزل ہے

ہر جبیں آستاں تلاش کرے


اپنے محور پہ رہ نہیں سکتی

جو زمیں آسماں تلاش کرے


عشق ڈھونڈے کہانیاں اپنی

حسن اپنا بیاں تلاش کرے


کوئی تو راستوں پہ نکلے بھی

کوئی تو کارواں تلاش کرے


کیا حقیقت پہ چل گیا افسوں

کیا یقیں بھی گماں تلاش کرے


کیا ستاروں سے جا ملیں آنکھیں

کیا نظر کہکشاں تلاش کرے


کس کو کردار کی تمنا ہے

کون اب داستاں تلاش کرے


جاؤ کہہ دو نثارؔ جا کے اسے

ہم سا اک مہرباں تلاش کرے


نثار ترابی


عفت زریں

 یوم پیدائش 10 اکتوبر 1958


اگر وہ مل کے بچھڑنے کا حوصلہ رکھتا

تو درمیاں نہ مقدر کا فیصلہ رکھتا


وہ مجھ کو بھول چکا اب یقین ہے ورنہ

وفا نہیں تو جفاؤں کا سلسلہ رکھتا


بھٹک رہے ہیں مسافر تو راستے گم ہیں

اندھیری رات میں دیپک کوئی جلا رکھتا


مہک مہک کے بکھرتی ہیں اس کے آنگن میں

وہ اپنے گھر کا دریچہ اگر کھلا رکھتا


اگر وہ چاند کی بستی کا رہنے والا تھا

تو اپنے ساتھ ستاروں کا قافلہ رکھتا


جسے خبر نہیں خود اپنی ذات کی زریںؔ

وہ دوسروں کا بھلا کس طرح پتا رکھتا


عفت زریں


مصطفی زیدی

 یوم پیدائش 10 اکتوبر 1929


کسی اور غم میں اتنی خلش نہاں نہیں ہے

غم دل مرے رفیقو غم رائیگاں نہیں ہے


کوئی ہم نفس نہیں ہے کوئی رازداں نہیں ہے

فقط ایک دل تھا اب تک سو وہ مہرباں نہیں ہے


مری روح کی حقیقت مرے آنسوؤں سے پوچھو

مرا مجلسی تبسم مرا ترجماں نہیں ہے


کسی زلف کو صدا دو کسی آنکھ کو پکارو

بڑی دھوپ پڑ رہی ہے کوئی سائباں نہیں ہے


انہیں پتھروں پہ چل کر اگر آ سکو تو آؤ

مرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں ہے


مصطفی زیدی


منصور عباس

 یوم پیدائش 09 اکتوبر


دیارِ ضبط کا رستہ بنا کے مارا گیا 

میں اپنی آنکھ کو فاقہ سکھا کےمارا گیا


میں اپنی جان گنوا بیٹھاپہلی ہجرت میں 

میں اپنے جسم میں آیا اور آ کے مارا گیا


بدن تو روز بناتا تھا اُس بلوچن کا

مگر مَیں آج تو چہرہ بنا کے مارا گیا


وہ پگڑیوں کی زیارت کو آۓ تھے لیکن 

کوٸی وہاں پہ دوپٹہ دکھا کے مارا گیا 


تمام لوگ یزیدی تھے اور وہ سَیَّد

کسی کو ذات کا شجرہ بتا کے مارا گیا


وہ مٸےکَشوں کا علاقہ تھا اور مَیں پاگل

کسی جبین پہ سجدہ بنا کے مارا گیا


ہوا میں اڑتا رہا دن کو اور رات میں وہ

کسی چراغ میں چہرہ دکھا کے مارا گیا


مصور عباس


منموہن تلخ

 یوم پیدائش 09 اکتوبر 1931


یہ شہر شہر سر عام اب منادی ہے

نہ وہ رہے گا ملاقات کا جو عادی ہے


زمین دی ہے کھلی دھوپ دی ہوا دی ہے

بہ نام زندگی کیسی کڑی سزا دی ہے


میں اپنے آپ سے کیا پوچھتا ہوں رہ رہ کر

یہ کیوں لگے کہ کسی نے مجھے صدا دی ہے


ترا ہی روپ کوئی تھا یہاں جب آیا تھا

یہ دیکھ وقت نے اب شکل کیا بنا دی ہے


دعا سلام تو تھی رسم ربط سے تھی مراد

سو میرے شہر نے یہ رسم ہی اٹھا دی ہے


فقط صدا ہی سنو کیوں نظر نہ آئے گی

کہ اب تو بیچ کی دیوار بھی گرا دی ہے


تمام عمر نہ اس کو کسی نے پہچانا

جو اس کے منہ پہ تھی چادر وہ کیوں ہٹا دی ہے


یہ اب گھروں میں نہ پانی نہ دھوپ ہے نہ جگہ

زمیں نے تلخؔ یہ شہروں کو بد دعا دی ہے


منموہن تلخ


شجر ڈیروی

 یوم پیدائش 08 اکتوبر


فاصلہ عشق کی شدت کو بڑھا دیتا ہے

حوصلہ ہجر کو جینے کا خُدا دیتا ہے


نفس کو مار کے آسان نہیں ہے جینا

درد آتش ہے یہ تَن مَن کو جلا دیتا ہے


وقت لے جاتا ہے منزل کی طرف راہی کو

 کس کو معلوم ہے رب رزق کُجا دیتا ہے


عید کا یوم گُزرتا ہے شجرؔ فُونوں پر

صوت کا دَرد مگر یار رُلا دیتا ہے


شجرؔ ڈیروی


ڈاکٹر سید کاظم

 یوم پیدائش 08 اکتوبر


بے وجہ آن بان میں رہنے کی چیز ہے 

آوارگی اڑان میں رہنے کی چیز ہے 


پتلی کمر نشیلی نظر تل ہے ہونٹ پر

تیرا وجود دھیان میں رہنے کی چیز ہے 


دل کی نہ مان مان بس اپنے دماغ کی 

دل تو بس آسمان میں رہنے کی چیز ہے 


انسان کون کیا ہے اِسے کچھ خبر نہیں 

یہ آئینہ گمان میں رہنے کی چیز ہے 


کاظم نکل کے گھر سے ملا ہے یہی سراغ 

یہ زندگی مکان میں رہنے کی چیز ہے 


ڈاکٹر سید کاظم


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...