Urdu Deccan

Saturday, November 13, 2021

شعیب زمان

 یوم پیدائش 14 نومبر


چاہے جس چاک پر گھماؤ مجھے

تم مرا آئینہ بناؤ مجھے


ڈوب سکتی نہیں مری آواز

لگنے والا نہیں یہ گھاؤ مجھے


ورنہ دل میں اتر بھی سکتا ہوں

پہلی فرصت میں بھول جاؤ مجھے


قید کرنا بھی سیکھ جاؤں گا

پہلے زنجیر تو بناؤ مجھے


ٹوٹ جانے سے بچ گیا ہوں میں

راس آیا ہے یہ جھکاؤ مجھے


شعیب زمان


ظہیر ناصری

 خزانہ دل میں علم وآگہی کا ہم بھی رکھتے ہیں

مٹانے تشنگی مٹّی کا کوزہ ہم بھی رکھتے ہیں


قلندرہیں ہمیں دربارِشاہی سے ھے کیا مطلب

وہاں تک باریابی کا وثیقہ ہم بھی رکھتے ہیں


چمن میں پھولنے پھلنے کا موقع کیوں نہیں حاصل

سرِشاخِ تمنّاآشیانہ ہم بھی رکھتے ہیں


ابھی طاقِ گماں میں کچھ دھواں باقی ھے ماضی کا

یقیں انگیز بنناہوتو سرمہ ہم بھی رکھتے ہیں


نواحِ شہرِ جاں میں آگ برسانے کی خوُ کب تک

بجھانے آگ نوحی پاک دریا ہم بھی رکھتے ہیں


ترے نقشِ قدم ہیں چاند کے سینے پہ، حیرت کیا

اُسے دونیم کرنے کا اشارا ہم بھی رکھتے ہیں


اگر زنخیر ٹوٹے پاسداری کی ظہیر اک دن

ہُنر حلقوں کو پھر سے جوڑنے کا ہم بھی رکھتے ہیں


ظہیر ناصری محبوب نگر


شاہین فصیح ربانی

 یوم پیدائش 14 نومبر 1964


خواب کے حسن کا الطاف نہیں پاتا ہوں

اس کو تعبیر کا ملبوس جو پہناتا ہوں


جب کبهی حسنِ سماعت کا بدن پاتا ہوں

"تیری آواز کے قدموں سے لپٹ جاتا ہوں"


مجھ کو دستک پہ بهی ملتی نہیں کردار کی بھیک

درِ افسانہ سے خالی ہی پلٹ آتا ہوں


آ گئی راس مجھے ہجر کی بے چین فضا

اب تری پیشکشِ قرب کو ٹھکراتا ہوں


جب بھی تنہائی تری یاد سے ملواتی ہے

دل پہ کھائی ہوئی اک چوٹ کو سہلاتا ہوں


دن فقط سوچ کی دیتا ہے سہولت پیارے

رات ہونے دے، ترے خواب میں آ جاتا ہوں


یوں رہِ زیست سرابوں سے اٹی ہے کہ نہ پوچھ

پانی بھرنے کے لیے دشت میں آ جاتا ہوں


عمر آوازوں کے جنگل میں گزاری ہے فصیح

بات کرتا ہوں تو لگتا ہے کہ چِلّاتا ہوں


شاہین فصیح ربانی


پیر نصیر الدین شاہ نصیر

 یوم پیدائش 14 نومبر 1949


کبھی ان کا نام لینا کبھی ان کی بات کرنا

مرا ذوق ان کی چاہت مرا شوق ان پہ مرنا


وہ کسی کی جھیل آنکھیں وہ مری جنوں مزاجی

کبھی ڈوبنا ابھر کر کبھی ڈوب کر ابھرنا


ترے منچلوں کا جگ میں یہ عجب چلن رہا ہے

نہ کسی کی بات سننا، نہ کسی سے بات کرنا


شب غم نہ پوچھ کیسے ترے مبتلا پہ گزری

کبھی آہ بھر کے گرنا کبھی گر کے آہ بھرنا


وہ تری گلی کے تیور، وہ نظر نظر پہ پہرے

وہ مرا کسی بہانے تجھے دیکھتے گزرنا


کہاں میرے دل کی حسرت، کہاں میری نارسائی

کہاں تیرے گیسوؤں کا، ترے دوش پر بکھرنا


چلے لاکھ چال دنیا ہو زمانہ لاکھ دشمن

جو تری پناہ میں ہو اسے کیا کسی سے ڈرنا


وہ کریں گے نا خدائی تو لگے گی پار کشتی

ہے نصیرؔ ورنہ مشکل، ترا پار یوں اترنا


پیر نصیر الدین شاہ نصیر


سیدہ مظلوم فاطمہ جعفری

 علم وادب کی خود میں ہے چاشنی سمیٹے

کتنی یہ منفرد ہے اردو زبان اپنی


سیدہ مظلوم فاطمہ جعفری


رانا التمش ماشی

 یہ نگر وہ نگر قیامت تک 

زندگی ہے سفر قیامت تک


اس کی مرضی ہے کب ملے نہ ملے

میں تو ہوں منتظر قیامت تک


جسم میں روح ڈال کر بولا

آدمی موج کر قیامت تک


وہ کسی اور کا نہ ہو جائے 

رکھ نظر پر نظر قیامت تک


چاندنی آتی جاتی رہنی ہے 

چاند ہے عرش پر قیامت تک


ایک پل ہی ہمیں ڈراتا ہے  

اور رہتا ہے ڈر قیامت تک


مرتے جائیں گے باری باری سب 

چلتا جائے گا گھر قیامت تک


چہرے مٹتے رہیں گے لمحوں میں 

یاد ہو گی مگر قیامت تک


چار دن کی ہے چاندنی دنیا 

چار دن کا اثر قیامت تک


یہ قیامت ہے کیا بھلا ماشی

نہیں ملنی خبر قیامت تک


رانا التمش ماشی


اظہر

 کوئی دل سے اتر گیا شاید

زخم امید بھر گیا شاید


اب وہ روتا ہے روز روتا ہے

کوئی اپنا مکر گیا شاید


اس کا کوچہ پڑا ہے ویرانہ

لوٹ کر اپنے گھر گیا شاید۔


اس کے سانسیں رکی اچانک سے

سن کے آواز ڈر گیا شاید


تیرے لب پر جو مسکراہٹ ہے

دل کا غم اب اتر گیا شاید


یہ جو ہلچل سی دل میں ہے اظہر

پھر سے ارماں ابھر گیا شاید


اظہر


زیں احترام

 خوبصورت خیال ہے اردو

گفتگو کا جمال ہے اردو

کل تلک جو مخالفت میں تھا

پڑھ کے بولا کمال ہے اردو


زین احترام


عاجز ماتوی

 یوم پیدائش 12 نومبر 1932


اک بار اپنا ظرف نظر دیکھ لیجئے

پھر چاہے جس کے عیب و ہنر دیکھ لیجئے


کیا جانے کس مقام پہ کس شے کی ہو طلب

چلنے سے پہلے زاد سفر دیکھ لیجئے


ہو جائے گا خود آپ کو احساس بے رخی

گر آپ میرا زخم جگر دیکھ لیجئے


سب کی طرف ہے آپ کی چشم نوازشات

کاش ایک بار آپ ادھر دیکھ لیجئے


تارے میں توڑ لاؤں گا آکاش سے مگر

شفقت سے آپ بازو و پر دیکھ لیجئے


جمہوریت کا درس اگر چاہتے ہیں آپ

کوئی بھی سایہ دار شجر دیکھ لیجئے


ہو جائے گی حقیقت شمس و قمر عیاں

ان کو نگاہ بھر کے اگر دیکھ لیجئے


یہ برق حادثات بھی کیا ظلم ڈھائے گی

اٹھنے لگے گلوں سے شرر دیکھ لیجئے


عاجزؔ چلی ہیں ایسی تعصب کی آندھیاں

اجڑے ہوئے نگر کے نگر دیکھ لیجئے


عاجز ماتوی


Friday, November 12, 2021

حمزہ میر

 یوم پیدائش 13 نومبر


پانی برسا تھا کہیں آگ کہیں چھائی تھی

خاک چھانی تھی جہاں، خاک وہیں چھائی تھی


آسماں روند دیے پاؤں میں کتنے ہی مگر

اب کہ اپنے سروں پر ایک زمیں چھائی تھی


طعنہ زن رہتے تھے جس پر سبھی منبر والے

ہندو بستی میں وہی ماہ جبیں چھائی تھی


جیسے سیاروں کا سورج کے ہے اطراف حصار

گھر کے مالک پہ اسی طرح مکیں چھائی تھی


اس کے چہرے سے چھلکتا تھا کئی حوروں کا حسن

اس کے سینے کے قریں خلدِ بریں چھائی تھی


مجھ کو معلوم تھی اول سے حقیقت اس کی

سو مرے ذہن پہ اک پل بھی نہیں چھائی تھی


چاہتے تھے جو اگا لیتے تھے آسانی سے

اپنے اطراف میں زرخیز زمیں چھائی تھی


حمزہ میر 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...