Urdu Deccan

Saturday, January 22, 2022

بشیر آروی

 یوم پیدائش 19 جنوری 1938


مرا یقیں، نہ کہیں میرا وہم ہو جائے

کبھی تو خواب کی تعبیر لے کے تو آئے


ترے جہان کی وسعت ترے خیال سے ہے

وہی خیال ہر اک دل میں کاش در آئے


نمود صبح کی، تقدیر شب تو ہے لیکن

مرا خیال گہن میں کہیں نہ آ جائے


یہ راستہ ہے لہو کا، قدم قدم پہ کہیں

چلو چلو کی سدا سن کے دل نہ گھبرائے


یہ ڈر، یہ خط، یہ تشویش کی فصیلیں ہیں

خدا کا قہر بھی اس شہر میں اتر آئے


بشیر آروی


محمد امتیاز قیصر

 یوم پیدائش 19 جنوری


کارِ جنوں میں خود کو نہ خود کی خبر ملے

دستِ طلب کو اپنا ہی شوریدہ سر ملے


رُخ آسماں کا لرزہ بر اندام کیوں نہ ہو

نوکِ سناں پہ جب کوئی پاکیزہ سر ملے


 آئے نظر شفق پہ پرندے شکستہ حال

 وہ چاہتے ہیں اب انھیں زارِ شجر ملے

 

 مجھ کو ہے زندگی سے زیادہ قضا عزیز

 ”یا رب مری دعا کو نہ بابِ اثر ملے“

 

 قیصر کو ابتغائے محبت سے کیا غرض

 حسرت ہے اس کے دل میں کہ سوزِ جگر ملے

 

محمد امتیاز قیصر


جلال الدین خان نظر گیاوی

 یوم پیدائش 19 جنوری 1949

 

 اب شام زندگی کا اندھیرا بھی ہو چلا

 جو ہوں اسیر گردش حالات کیا کروں


(جلال الدین خاں نظر گیاوی)


حیدر بیابانی

 شاعر حیدر بیابانی ادب اطفال کے اہم ستون آج بتاریخ 19/01/2022 اچلپور میں انتقال کر گئے

انا الیہ وانا الیہ راجعون


نہ دولت کام آئے گی نہ طاقت کام آئے گی

شرافت ہے کھرا سکہ شرافت کام آئے گی


نہ دیکھیں ہم بھری آنکھوں سے اپنے ہاتھ کے چھالے

کریں محنت مرے بھائی کہ محنت کام آئے گی


رہیں جس حال میں لیکن چلیں ہم راستہ سیدھا

یہی اپنی روش روز قیامت کام آئے گی


بڑھیں آگے ستارے چاند، سورج راہ تکتے ہیں

کسی بھی چیز کو پانے میں محنت کام آئے گی


سہج رکھیں اگر گھر میں پڑی ہیں فالتو چیزیں

ہے ہر شئے کام کی وقت ضرورت کام آئے گی


کریں گے علم حاصل چاہے ہم کو چین جانا ہو

نبی فرماگئے بے شک یہ دولت کام آئے گی


جہاں دیدہ بزرگوں سے بصیرت پاؤ حیدر جی

بصیرت جس میں ہو ایسی بصارت کام آئے گی


حیدر بیابانی


مولانا ظفر علی خان

 یوم پیدائش 19 جنوری 1873


وہ مسلمان کہاں اگلے زمانے والے

گردنیں قیصر و کسریٰ کی جھکانے والے


امتیاز ابیض و اسود کا مٹانے والے

سبق انسان کو اخوّت کا پڑھانے والے


بات کیا تھی کہ نہ روما سے نہ ایران سے دیے

چند بے تربیت اونٹوں کے چرانے والے


بھید وہ کیا تھا جو آپس میں ملے تھے نہ کبھی

ہوگئے مشرق و مغرب کو ملانے والے


جن کو کا فور پہ ہوتا تھا نمک کا دھوکا

بن گئے خاک کو اکسیر بنانے والے


پیشوائی کو نکل آئی خدائی ساری

گھر سے نکلے جو محمدؐ کے گھرانے والے


 غم و خمخانہ بھی ہے مہر و نشاں بھی ہے وہی

  نہیں ملتے ہیں مگر خم کے لنڈھانے والے

  

 وہی نیسان ہے گہر ریز ابھی تک لیکن

  نظر آتے نہیں گوہر کے لٹانے والے

  

 کیا سکھاتے ہیں تمدن کی حقیقت ہم کو

  آج قرآن کی دولت کو چرانے والے

  

 فیض کس کا ہے یہ اس پر بھی کبھی غور کریں

  اپنی تہذیب کا افسانہ سنانے والے

  

 بادشاہی میں فقیری کا چلن رکھتے ہیں

  دوش پر بار امانت کا اٹھانے والے

  

 نہ دبے ہیں کبھی باطل سے نہ دب سکتے ہیں

  گردن اللہ کے رستے میں کٹانے والے

  

آشنا ذوق اسیری سے ہو میری مانند

شعر کہنے ہوں اگر وجد میں لانے والے


مولانا ظفر علی خان


مولانا ظفر علی خان

 یوم پیدائش 19 جنوری 1873


کچھ اس کی بھی خبر ہے تجھ کو اے مسلم کہ آپہنچی

وہ ساعت جو نہ بھولے سے بھی لے گی نام ٹلنے کا


بھڑک اٹھی وہ آگ اسلام نے جس کی خبر دی تھی

کیا ہے کفر نے ساماں ترے خرمن کے جلنے کا


جمی ہیں پپڑیاں تیرے غبار آلودہ ہونٹوں پر

تماشا دیکھ لے حسرت سے زمزم کے ابلنے کا


تجھے تہذیب مغرب سبز باغ اپنا دکھاتی ہے

یہ ساماں ہو رہا ہے تیری نیت کے پھسلنے کا


ترا اخراج قسطنطنیہ سے شائد نشاں ہوگا

امام مہدی برحق کے میداں میں نکلنے کا


اگر قرآں کے وعدے سچ ہیں اور شک نہیں سچ میں

تو وقت آہی گیا ہے کفر کے سورج کے ڈھلنے کا


رسول اللہ خود گرتے ہوؤں کو تھام لیتے ہیں

تجھے اے بے خبر ہر وقت موقع ہے سنبھلنے کا


خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی

نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا


مولانا ظفر علی خان 


فیض الامین فیض

 یوم پیدائش 18 جنوری 


قدرت کا سرسبز بچھونا اچھا لگتا ہے 

کھلی فضا میں گھاس پہ سونا اچھا لگتا ہے 


شام ڈھلے جب شاخ پہ چڑیاں نغمے گاتی ہیں 

مجھ کو تیرے ساتھ میں ہونا اچھا لگتا ہے 


ہر ایک چیز جو اپنی جگہ پر سجی سجائی ہو 

خود ہی گھر کا کونا کونا اچھا لگتا ہے 


تم کیا جانو رہ رہ کیسے پاتے ہیں منزل 

تم کو تو بس خواب سلونا اچھا لگتا ہے 


میرے گاؤں کے لوگ بھی کتنے بھولے بھالے ہیں 

آج بھی ان کو جادو ٹونا اچھا لگتا ہے


فیض الامین فیض


عائشہ ایوب

 یوم پیدائش 18 جنوری 1983


اگر وہ خود ہی بچھڑ جانے کی دعا کرے گا 

تو اس سے بڑھ کے مرے ساتھ کوئی کیا کرے گا 


سنا ہے آج وہ مرہم پہ چوٹ رکھے گا 

مجھی سے مجھ کو بھلانے کا مشورہ کرے گا 


ترس رہی ہیں یہ آنکھیں اس ایک منظر کو 

جہاں سے لوٹ کے آنے کا دکھ ہوا کرے گا 


اگر یہ پھول ہے میری بلا سے مرجھائے 

اگر یہ زخم ہے مالک اسے ہرا کرے گا 


میں جانتی ہوں کہ جتنا خفا بھی ہو جائے 

وہ میرے شہر میں آیا تو رابطہ کرے گا 


میں اس سے اور محبت سے پیش آؤں گی 

جو میرے حق میں کوئی عائشہؔ برا کرے گا 


عائشہ ایوب


تبسم صدیقی

 یوم پیدائش 18 جنوری 1964


یہ جو ہم اختلاف کرتے ہیں 

آپ کا اعتراف کرتے ہیں 


آؤ دھوتے ہیں دل کے داغوں کو 

آؤ آئینے صاف کرتے ہیں 


تم کو خوش دیکھنے کی خاطر ہم 

بات اپنے خلاف کرتے ہیں 


مجرم عشق تو بھی ہے اے دوست 

جا تجھے ہم معاف کرتے ہیں 


لفظ کے گھاؤ ہوں تو کیسے بھریں 

لفظ گہرا شگاف کرتے ہیں


تبسم صدیقی


قمر الدین صدیقی برتر

 یوم پیدائش 18 جنوری 1935

(نظم) بچے اسکول سے آرہے ہیں


بچے اسکول سے آرہے ہیں

بچے معصوم روشن ستارے

حسن گھر کا ہیں آنگن کی رونق

 خوش فضا یہ وطن کے نظارے


 ان سے روشن رہے گا زمانہ

 ان میں وہ علم کی روشنی ہے

 ان سے انسانیت ہی بڑھے گی

 ان میں وہ پیار کی زندگی ہے


 یہ ہیں پاکیزہ جذبوں کا گلشن

 یہ محبت ہیں اور یہ وفا ہیں

 ان پہ قرآں کی آیات واری

 ان پہ انجیل گیتا فدا ہیں


اُف یہ کیسا دھماکہ ہوا ہے

بچوں کے چیتھڑے اڑ گئے ہیں

جیسے قرآں کے بکھرے ہوں اوراق

جیسے انجیل گیتا پھٹے ہیں


اے دھماکوں کے بانی، تو سن لے 

یہ عمل وحشیانہ قدم ہے

اپنے رب کو دکھائے گا کیا منہ

نا پسند ارب کو تیرا ستم ہے


کوئی مذہب یہ کہتا نہیں ہے

بے گناہوں کو مارو ، مٹائو

مذہبوں کی تو تلقین یہ ہے

علم کی روشنی سب میں لائو


علم کی گرمی لے کر بڑھیں ہم

تبجہالت کا کہرا چھٹے گا

پھر بُری سوچ ہوگی نہ کوئی

تب عمل وحشیانہ ہٹے گا


قمر الدین صدیقی برتر 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...