Urdu Deccan

Wednesday, March 23, 2022

ثاقب ندیم

 یوم پیدائش 05 مارچ


نقرئی قہقہہ مرے اندر

رات بھر گونجتا مرے اندر


شور کو ڈھیر کر دیا میں نے

تھا کوئی چیختا مرے اندر


ایک گرداب ہے کنارے پر

جاگ اے ناخدا مرے اندر


کیسا اندر سمٹ گیا ہوں میں

کون ہے جھانکتا مرے اندر


ایک تاریک غار سے ہوتا

چل دیا راستہ مرے اندر


پھر کہیں رات کی کہانی میں

تھا کوئی رتجگا مرے اندر


جاگتا رہ گیا تھا دروازہ

اور کوئی سو گیا مرے اندر


ثاقب ندیم


احمد مشتاق

 یوم پیدائش 01 مارچ 1933


مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے

وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے


جس کی سانسوں سے مہکتے تھے در و بام ترے

اے مکاں بول کہاں اب وہ مکیں رہتا ہے


اک زمانہ تھا کہ سب ایک جگہ رہتے تھے

اور اب کوئی کہیں کوئی کہیں رہتا ہے


روز ملنے پہ بھی لگتا تھا کہ جگ بیت گئے

عشق میں وقت کا احساس نہیں رہتا ہے


دل فسردہ تو ہوا دیکھ کے اس کو لیکن

عمر بھر کون جواں کون حسیں رہتا ہے


احمد مشتاق


کنول ڈبائیوی

یوم پیدائش 05 مارچ 1919


ماہ و انجم کی روشنی گم ہے 

کیا ہر اک بزم سے خوشی گم ہے 


چاند دھندلا ہے چاندنی گم ہے 

حسن والوں میں دل کشی گم ہے 


زندگی گم نہ دوستی گم ہے 

یہ حقیقت ہے آدمی گم ہے 


اس ترقی کو اور کیا کہیے 

شہر سے صدق کی گلی گم ہے 


پھول لاکھوں ہیں صحن گلشن میں 

ان کی ہونٹوں کی گو ہنسی گم ہے 


محنت باغباں کا ذکر نہیں 

غل ہے پھولوں سے دل کشی گم ہے 


ہے ترقی نئے ادب کی یہ 

شعر سے حسن شاعری گم ہے 


غم بتاؤ کنولؔ کہاں ڈھونڈوں 

بزم عالم سے دوستی گم ہے 


کنولؔ ڈبائیوی


علی راحل بورے والا

 یوم پیدائش 04 مارچ 1972


فصیلِ ہجر گرانے دے ہمنوا میرے

ذرا قریب تو آنے دے ہمنوا میرے


کبھی ٹھہر دو گھڑی پل کے واسطے ، دل کا

کبھی تو حال سنانے دے ہمنوا میرے


نظر جھکاٸے تو بیھٹا ہے کس لیے, پیاسی

نظر کی پیاس بجھانے دے ہمنوا میرے


کبھی تو چھیڑ نے دے مجھ کو راگ الفت کے  

ترانہ پیار کا گانے دے ہمنوا میرے

 

گھڑی ملن کی مقدر سے آج آٸی ہے

نہ راٸیگاں اسے جانے دے ہمنوا میرے


نہ کر سکوں میں فراموش حشر تک جن کو

کچھ ایسے خواب سہانے دے ہمنوا میرے


نہ مجھ کو یاد دلا بیتے وقت کی رَاحِلؔ

جو وقت کٹ گیا جانےدے ہمنوا میرے


علی رَاحِلؔ بورے والا


شبنم سید معین الدین

 یوم پیدائش 04 مارچ


1973


حضور دور نہ جاؤ، بڑا اندھیرا ہے

میں گر گئی تو اٹھاؤ، بڑا اندھیرا ہے


میں اپنے حسن کی تنویر کو بڑھاؤں گی

چراغ دل کے جلاؤ ، بڑا اندھیرا ہے


خبر ہے مجھ کو سویرا بھی ہونے والا ہے

ابھی نہ روٹھ کے جاؤ، بڑا اندھیرا ہے


یہ چاند دور سے کتنا حسین لگتا ہے

اسے قریب بھی لاؤ، بڑا اندھیرا ہے


کہ ٹوٹ جائے گی شبنم تمھارے جانے سے

ہنساؤ یا کہ رلاؤ، بڑا اندھیرا ہے


شبنم سید معین الدین

رخسانہ صبا

 یوم پیدائش 04 مارچ 1959


لکیروں کا نیا اک جال پیشانی پہ رکھ دوں 

اور اپنا عکس آئینے کی حیرانی پہ رکھ دوں


تو کیا دریا کی لہروں کو سفیر خواب جانوں 

تو کیا لکھا ہوا ہر لفظ میں پانی پہ رکھ دوں


نئے اک دشت کی تعمیر مجھ میں ہورہی ہے

سو یہ الزام بھی رستوں کی ویرانی پہ رکھ دوں


زمانے کی یہ حالت دیکھ کر جی چاہتا ہے 

محبت کو زمانے کی نگہبانی پہ رکھ دوں


یہی منظر نکالے گا سخن کی راہ مجھ میں

سو یہ بجھتا ہوا منظر خوش امکانی پہ رکھ دوں


ہر اک تعبیر ہے گریہ کناں اور کہہ رہی ہے 

کہ اس کا بوجھ بھی خوابوں کی ارزانی پہ رکھ دوں


رخسانہ صبا


فرخندہ رضوی

 یوم پیدائش 23 مارچ


یہ لُطف بھی مُجھ پر ہو مدینے میں سحر ہو

فیضانِ پیمبر ہو  مدینے میں سحر ہو


حسرت یہ میری ہے کہ مرے سر پہ خدایا

خاکِ درِ اطہر ہو مدینے میں سحر ہو


فرقت کی گھڑی ختم ہو اب تو مرے مولا

شاداں دلِ مُضطر ہو مدینے میں سحر ہو


حسرت یہی ہے یادِ شہِ ارض و سما میں

دامانِ طلب تر ہو مدینے میں سحر ہو


اے شوقِ ادب خاکِ مدینہ پہ گرا دے

یہ میرا مقدر ہو مدینے میں سحر ہو


ہر غم میں بھلادوں گی اگر میری نظر میں

وہ روضۂ انور ہو مدینے میں سحر ہو


تصویرِ نبی ہو اگر آئینہ دل میں

دل میرا منور ہو مدینے میں سحر ہو


بشارت جبین


Friday, March 18, 2022

ریاض الدین عطش

یوم پیدائش 04 مارچ 1925


زندگانی وہ معتبر ہوگی 

جو محبت کے نام پر ہوگی

 

ہوگی پھولوں کی منزلت معلوم 

عمر کانٹوں میں جب بسر ہوگی 


دل رہے گا تو خون دل ہوگا 

اشک ہوں گے تو چشم تر ہوگی

 

جو تجھے دیکھ کے پلٹ آئے 

وہ نظر بھی کوئی نظر ہوگی

 

رات تو دن کی اک علامت ہے 

رات ہوگی تو اک سحر ہوگی 


رات بھر ہم جلیں گے فرقت میں 

روشنی آج رات بھر ہوگی

 

بیکلی کا گماں عطشؔ تھا مگر 

یہ نہ سمجھا تھا اس قدر ہوگی


ریاض الدین عطش


افروز رضوی

 یوم پیدائش 03 مارچ 1969


یہ خواب جس نے دکھائے تھے اک سفر کے مجھے 

وہ اشک دے گیا آنکھوں میں عمر بھر کے مجھے 


ہے فن میں یکتا وہ صیاد ہو کہ ہو دلبر 

اڑان بھرنے کو کہتا ہے پر کتر کے مجھے 


کٹھن تھا راستہ دشوار تھی ہر اک منزل 

کوئی دکھائے اسی راہ سے گزر کے مجھے 


میں اس کی خاص نظر سے تڑپ تڑپ اٹھوں 

وہ اتنے پیار سے دیکھے ٹھہر ٹھہر کے مجھے 


ذرا سی دیر ٹھہرنے دے اے غم دنیا 

ذرا سا دیکھ لے وہ بھی تو آنکھ بھر کے مجھے 


مرے خیال کی الجھن کہاں سدھرتی ہے 

گل بہار نے دیکھا ہے پھر سنور کے مجھے 


سلگ رہی ہوں میں سانسوں کی تیز بھٹی میں 

پلا رہا ہے وہ الفت کے جام بھر کے مجھے 


وہ شہد گھول رہا ہے سماعتوں میں مری 

بلا رہا ہے کوئی بام سے اتر کے مجھے 


دھڑک رہا ہے محبت میں دل مرا افروزؔ 

گزر رہی ہیں ہوائیں بھی پیار کر کے مجھے


افروز رضوی 


مغفور احمد اعجازی

 یوم پیدائش 03 مارچ 1966


اکھڑی ہوئی سانسوں کا سماں دیکھ تو لیتے

بجھتی ہوئی مشعل کا دھواں دیکھ تو لیتے

لو ڈوب چکی ہے مرے ارمانوں کی کشتی

اے جان جہاں آکے ذرا دیکھ تو لیتے


مغفور احمد اعجازی


  


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...