Urdu Deccan

Friday, March 25, 2022

بشیر فاروق

 یوم پیدائش 23 مارچ 1939


وہ ستم پرور بہ چشم اشک بار آ ہی گیا

چاک دامانی پہ میری اس کو پیار آ ہی گیا


مٹتے مٹتے مٹ گئی جان وفا کی آرزو

آتے آتے بے قراری کو قرار آ ہی گیا


چپکے چپکے مجھ پہ میری خامشی ہنستی رہی

روتے روتے جذب دل پر اختیار آ ہی گیا


کوئی وعدہ جس کا معنی آشنا ہوتا نہیں

پھر اسی وعدہ شکن پر اعتبار آ ہی گیا


یا الٰہی جذبۂ ہوش و خرد کی خیر ہو

منتظر جس کا جنوں تھا وہ دیار آ ہی گیا


بشیر فاروق


احمرا بروی

 یوم پیدائش 23 مارچ 193


جنون و عقل نے مل کر نشان گاڑا ہے

کوئی بھی معرکہ اب تک ہوا نہ سر تنہا


احمرا بروی


بشارت جبین

 یوم پیدائش 23 مارچ


یہ لُطف بھی مُجھ پر ہو مدینے میں سحر ہو

فیضانِ پیمبر ہو مدینے میں سحر ہو


حسرت یہ میری ہے کہ مرے سر پہ خدایا

خاکِ درِ اطہر ہو مدینے میں سحر ہو


فرقت کی گھڑی ختم ہو اب تو مرے مولا

شاداں دلِ مُضطر ہو مدینے میں سحر ہو


حسرت یہی ہے یادِ شہِ ارض و سما میں

دامانِ طلب تر ہو مدینے میں سحر ہو


اے شوقِ ادب خاکِ مدینہ پہ گرا دے

یہ میرا مقدر ہو مدینے میں سحر ہو


ہر غم میں بھلادوں گی اگر میری نظر میں

وہ روضۂ انور ہو مدینے میں سحر ہو


تصویرِ نبی ہو اگر آئینہ دل میں

دل میرا منور ہو مدینے میں سحر ہو


بشارت جبین



امتیاز علی

 یوم پیدائش 23 مارچ 1982


قدیم دشت کے حالات سے نکلنا ہے

کہ عشق جیسی روایات سے نکلنا ہے


ہمی نے ، پہلی محبت میں ،فیصلہ کِیا تھا 

کہ دوسری کی خرافات سے نکلنا ہے


دماغ خالی کِیا ، بند کرلی ہیں آنکھیں 

مزید یہ کہ خیالات سے نکلنا ہے


پتہ نہیں ہے کہاں جانا ہے کہاں کے ہیں 

ہمیں تو تیرے مضافات سے نکلنا ہے 


ہم ایسے لوگ ہیں جن کے سوال ہوتے نہیں

سو ہم کو اپنے جوابات سے نکلنا ہے 


کنارے شام کھڑے سوچتے رہے دونوں 

کہ کس طرح ہمیں دن رات سے نکلنا ہے


قریب تھا کہ ہمیں معجزہ کوئی لگتا 

سو برگزیدہ کرامات سے نکلنا ہے


ہم آدمی ہیں بنے ، ایک دوسرے کے لئے

بس اپنے اپنے مکافات سے نکلنا ہے


خیال ہے یہ زمیں ہی الٹ دی جائے گی 

ہمیں خیال کے خدشات سے نکلنا ہے


پگھل رہے ہیں ترے حسن کے محل میں ہم 

کہ برف پوش محلات سے نکلنا ہے


مکانِ دل کہ کھنڈر ہو چکا ہے ویراں بھی

کھنڈر سے ہوتے مکانات سے نکلنا ہے


امتیاز علی



مقصود شاہ

 یوم پیدائش 23 مارچ 1967


اَلْنَّجْمُ الْثَاقِب ( چمکتا ہوا ستارہ )

صلیّ اللّٰہ علیہ و آلہٖ وسلم


اِک ترا نقش ہی شہکار ہے، نجمِ ثاقب

باقی بازیچۂ اظہار ہے، نجمِ ثاقب


طاقِ چشمانِ تمنّا سے ترا اسمِ منیر

مطلعِ دل پہ ضیا بار ہے، نجمِ ثاقب


تُو فلک زارِ معلّٰی پہ ہے ہر سو روشن

تُو زمیں کا گُلِ بے خار ہے، نجمِ ثاقب


تیرے آثار ہی تاباں ہیں سرِ بامِ یقیں

ما سوا خواب کا انبار ہے، نجمِ ثاقب


تُو جو چاہے تو پسِ صورتِ احوال نہ ہو

یہ جو تشویشِ دلِ زار ہے، نجمِ ثاقب


وہ جو جبریل نے دیکھا تھا ہزاروں برسوں

تُو وہی مہبطِ انوار ہے، نجمِ ثاقب


ہے سرِ دید و پسِ دید ترا نور عیاں

ورنہ دیوار ہی دیوار ہے، نجمِ ثاقب


جس طرف دستِ عنایت ہے ترا خیر فشاں

اُس طرف کاسۂ نادار ہے، نجمِ ثاقب


ساعتِ نغمۂ مدحت ہے سکوں زا، ورنہ

زندگی نوحۂ ادبار ہے، نجمِ ثاقب


ہم نہیں ہوں گے سپردِ شبِ ظلمت مقصود

للّہِ الحمد، نگہدار ہے، نجمِ ثاقب


مقصود شاہ



خواجہ محمد زکریا

 یوم پیدائش 23 مارچ 1940


زندگی بھر تو سدا جبر سہے صبر کیے 

موت کے بعد مجھے کیا جو مری قبر جیے 


کھولتے لاوے کے مانند ابلتا ہے دماغ 

جب یہ حالت ہو تو کب تک کوئی ہونٹوں کو سیے 


جسم زخمی ہو تو سینا بھی اسے ممکن ہے 

روح پر زخم لگے ہوں تو انہیں کون سیے 


راہرو راہ میں کیڑوں کی طرح رینگتے رہیں 

راہ بر اونچی ہواؤں میں ہیں پلکوں کو سیے 


وہ اگر چاہیں تو تقدیر بدل سکتی ہے 

پر نہیں ان کو غرض کوئی مرے کوئی جیے 


روشنی دور بہت دور ہے پھر بھی ہم سے 

جگمگاتے ہیں افق تا بہ افق لاکھوں دیے 


کیسے زندہ ہوں ابھی تک نہیں سمجھا خود بھی 

زخم کھائے ہیں بہت میں نے بہت زہر پیے


خواجہ محمد زکریا



ہوش نعمانی رامپوری

 یوم پیدائش 22 مارچ 1933


ایک رنگین کہانی ہے ترے شہر کی رات 

ہائے یہ کس کی جوانی ہے ترے شہر کی رات 


بس یوں ہی زلف بکھیرے ہوئے آ جا اے دوست 

آج کس درجہ سہانی ہے ترے شہر کی رات 


ریگزار دل شاعر کے لئے جان غزل 

موج دریا کی روانی ہے ترے شہر کی رات 


دل کی اس کہر زدہ یاس بھری بستی میں 

تجھ سے ہی مانگ کے لانی ہے ترے شہر کی رات 


بار ہو جائے گا ذہنوں پہ تصور دن کا 

آج اس طرح جگانی ہے ترے شہر کی رات 


وہ نہیں ہے تو غمستان تخیل کی قسم 

ہوشؔ افسردہ کہانی ہے ترے شہر کی رات


ہوش نعمانی رامپوری



مطرب بلیاوی

 یوم پیدائش 22 مارچ 1929


اک حسنِ دل نوار کو کیا کیا کہا گیا

شبنم کہا گیا کبھی شعلہ کہا گیا

 

اہلِ ادب کی دیکھیے جدّت طرازیاں

پھولوں کی اک نقاب کو سہرا کہا گیا


اہل جنونِ شوق بھی کتنے عجیب ہیں

تم مسکرا دیئے ہو تو مژدہ کہا گیا


اجداد کی حیات کی تفسیر تھی جسے

تہذیب کی زبان میں شجرہ کہا گیا


مطرب حدیث شوق کا یہ بھی تو ہے عروج

جلوؤں کو حسنِ یار کا پردہ کہا گیا


مطرب بلیاوی 



عابد ادیب

 یوم پیدائش 22 مارچ 1937


سفر میں ایسے کئی مرحلے بھی آتے ہیں

ہر ایک موڑ پہ کچھ لوگ چھوٹ جاتے ہیں


یہ جان کر بھی کہ پتھر ہر ایک ہاتھ میں ہے

جیالے لوگ ہیں شیشوں کے گھر بناتے ہیں


جو رہنے والے ہیں لوگ ان کو گھر نہیں دیتے

جو رہنے والا نہیں اس کے گھر بناتے ہیں


جنہیں یہ فکر نہیں سر رہے رہے نہ رہے

وہ سچ ہی کہتے ہیں جب بولنے پہ آتے ہیں


کبھی جو بات کہی تھی ترے تعلق سے

اب اس کے بھی کئی مطلب نکالے جاتے ہیں


عابد ادیب



رحمت جمال

 یوم پیدائش 21 مارچ 1938


صرف آغوشِ چمن تک ہی نہیں اپنا قیام

ہم ہیں خوشبو ، خوشبوؤں کو قید کر پاؤ گے کیا


رحمت جمال 


محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...