Urdu Deccan

Sunday, June 5, 2022

اختر جمال

یوم پیدائش 01 جون 1959

حقیقت سامنے آئے گی خوابوں کے حوالے سے
یہاں دریا ابلتے ہیں سرابوں کے حوالے سے

ہمارے بعد آوارہ بگولے رقص کرتے ہیں
تمہیں اب کون چھوتا ہے گلابوں کے حوالے سے

سلگتے ذہن کے سب راستے سیراب ہوجاتے
برس جاتا کوئی ہم پر سحابوں کے حوالے سے

ہماری صبح اپنی ہے ہماری شام ہے اپنی
ہمارا نام مت لینا کتابوں کے حوالے سے

یہاں سے اپنے خوابوں کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
بہت دن جی لئے اخترؔ حسابوں کے حوالے سے

اختر جمال


 

خلش دہلوی

یوم پیدائش 02 جون 1935

وہ زندگی جو ترے پیار میں بسر نہ ہوئی 
تھی ایسی رات کہ جس کی کبھی سحر نہ ہوئی 

انہی کی چاہ میں یہ حال ہو گیا میرا 
مگر انہی کو مرے حال کی خبر نہ ہوئی 

سلگتی راہوں پہ سایہ تھا کس کی پلکوں کا 
یہ کون کہتا ہے اس سمت وہ نظر نہ ہوئی 

ہر ایک موڑ پہ دل نے تجھے تلاش کیا 
کسی بھی لمحے تمنا یہ منتشر نہ ہوئی 

خلشؔ یہ پوچھتا پھرتا ہے آبشاروں سے 
کہ کیوں یہ وادئ گل تیری رہ گزر نہ ہوئی

خلش دہلوی


 

رہبر جونپوری

یوم پیدائش 02 جون 1939

تخت نشینوں کا کیا رشتہ تہذیب و آداب کے ساتھ
یہ جب چاہیں جنگ کرا دیں رستم کی سہراب کے ساتھ

ظلم و تشدد کے شیدائی شاید تجھ کو علم نہیں
تیرے بھی سپنے ٹوٹیں گے میرے ہر اک خواب کے ساتھ

کنکر پتھر کی تعمیریں مذہب کا مفہوم نہیں
ذہنوں کی تعمیر بھی کیجے گنبد اور محراب کے ساتھ

قاتل بن کر وہ بھی کھڑے ہیں آج ہمارے پیش نظر
ہم نے جن کو عزت بخشی اعزاز و القاب کے ساتھ

اردو کو خود خون بہا کر جوڑ رہے ہیں رشتے لوگ
غالبؔ و مومنؔ منشیؔ و ملاؔ چکبستؔ و سیمابؔ کے ساتھ

رفتہ رفتہ ڈوب رہے ہیں میخانے ویرانی میں
جب سے میری پیاس کا رشتہ قائم ہے زہراب کے ساتھ

یاروں کی طوطا چشمی کا آخر اتنا شکوہ کیوں
رہبرؔ تم بھی کب مخلص تھے خود اپنے احباب کے ساتھ

رہبر جونپوری



محمد اسماعیل بدر

یوم پیدائش 01 جون 1907

مرثیہ بر وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عباس علی خان بیخود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل بسا آج ایک صاحبِ دل
مردِ مومن، شریف ، زندہ دل

پیکرِ حسن خلق و مہر و وفا
باعثِ انبساط و راحتِ دل

بات اس کی تھی موتیوں کی لڑی
ذات اس کی تھی جوہرِ قابل

رونقِ بزمِ دوستاں تھا وہ
جانِ مجلس تھا زینتِ محفل

حق گو ایسا کہ عین محفل میں
ڈھا دیا کرتا نقشِ ہر باطل

وقتِ امداد دوستوں کے لیے
مستعد رہتا تھا بجان و دل

مضطرب تھا وہ دل کے دورے سے
آج اس کو سکوں ہوا حاصل

”مغفرت کی دعا کر اسمٰعیل“
کہہ کے یہ چل بسا وہ صاحبِ دل

ہم سبق ، ہم خیال و ہم پیشہ
ہمدم و ہم رکاب ہم منزل

اے خدا رحم ، روحِ بے خودؔ پر
بارشِ رحمت اپنی کر نازل

یاد بے خودؔ کی کرتی ہے بیتاب
تاب لانے کی سعی کر اے دل

رشکِ پرویز و افتخارِ جمیل
ہوگیا ہم کنارِ ربِ جلیل

محمد اسماعیل بدر



مہتاب ظفر

یوم پیدائش 01 جون 1931

جن کی حسرت میں دل رسوا نے غم کھائے بہت 
سنگ ہم پر ان دریچوں نے ہی برسائے بہت 

روشنی معدوم گہرے ہو چلے سائے بہت 
جانے کیوں تم آج کی شب مجھ کو یاد آئے بہت 

قسمت اہل قفس پھولوں کی خوشبو بھی نہیں 
یوں تو گلشن میں صبا نے پھول مہکائے بہت 

لوگ اس کو بھی اگر کہتے ہیں تو کہہ لیں بہار 
مسکرائے کم شگوفے اور مرجھائے بہت 

ایک آنسو بھی گرے تو گونج اٹھتی ہے زمیں 
آج تو ہم اپنی تنہائی سے گھبرائے بہت 

ایک رسم سرفروشی تھی سو رخصت ہو گئی 
یوں تو دیوانے ہمارے بعد بھی آئے بہت 

عشرت ہستی پہ تھی مہتابؔ دنیا کی نظر 
دل کو کیا کہیے کہ اس نے درد اپنائے بہت

مہتاب ظفر



نور کلکتوی

یوم پیدائش 01 جون 1924

اے حسنِ جلوہ ریز کرشمہ تو اپنا دیکھ
ہر داغ میرے دل کا چراغِ جہاں ہوا

نور کلکتوی



شمس الحق شمس

یوم پیدائش 01 جون 1940

نادار کی خاطر جو پریشان رہےگا
اس شخص پہ اللہ کااحسان رہےگا

شمس الحق شمس


 

احسن شفیق

یوم پیدائش 01 جون 1941

کاٹ گئی کہرے کی چادر سرد ہوا کی تیزی ماپ 
اکڑوں بیٹھا اس وادی کی تنہائی میں تھر تھر کانپ 

مرمر کی اونچائی چڑھتے پھسلا ہے تو رونا کیا 
پاؤں پسارے کیچڑ میں اکھڑی سانسوں کی مالا جاپ 

اڑتے پنچھی پیاسی نظروں کی پہچان سے عاری ہیں 
تیز ہوئی جاتی ہیں کرنیں تھاپ سہیلی گوبر تھاپ 

پھوٹی چوڑی ٹوٹی دھنک رنگوں کا سحر بکھرتا سا 
سونے افق پر بہتے بادل گرم توے سے اٹھتی بھاپ 

بانسوں کے جنگل کی چلمن حسن جھلکتا منزل کا 
بڑھتے ہوئے قدموں کی تاک میں سوکھے ہوئے پتوں پر سانپ 

گرم سفر ہے گرم سفر رہ مڑ مڑ کر مت پیچھے دیکھ 
ایک دو منزل ساتھ چلے گی پٹکے ہوئے قدموں کی چاپ 

جھوم رہی ہے بھنور میں کشتی ساحل و طوفاں رقص میں ہیں 
تھکی ہوئی آنکھیں سو جائیں ایسا کوئی راگ الاپ 

دیکھ پھپھوند لگی دیواریں مجلس بھی بن سکتی ہیں 
طوفانی موسم ہے شفیقؔ اب اور کہیں کا رستہ ناپ

احسن شفیق


 

سلطان سجانی

یوم پیدائش 01 جون 1942

جہاں دار جتنی بھی سازش کرے گا 
خدا ہم پہ رحمت کی بارش کرے گا 

یہ شیشے کی آنکھیں یہ پتھر کے چہرے 
مرا درد کس سے گزارش کرے گا 

کسی کا جو ہمدرد ہوگا زمیں پر 
بہت گر کرے تو سفارش کرے گا 

عجب چیز ہے یہ ہنر کا خزانہ 
نہ جس کو ملے وہ نمائش کرے گا 

غزل جو بھی دیکھے گا سلطانؔ صاحب 
کہانی کی وہ کیا ستائش کرے گا 

سلطان سجانی


 

سلیم شہزاد

یوم پیدائش 01 جون 1949

ہوا کی زد میں پتے کی طرح تھا 
وہ اک زخمی پرندے کی طرح تھا 

کبھی ہنگامہ زا تھا بے سبب وہ 
کبھی گونگے تماشے کی طرح تھا 

کھلونوں کی نمائش تھی جہاں وہ 
کسی گم گشتہ بچے کی طرح تھا 

سنبھلتا کیا کہ سر سر سیل میں وہ 
اکھڑتے گرتے خیمے کی طرح تھا 

اگلتا بلبلے پھول اور شعلے 
وہ چابی کے کھلونے کی طرح تھا 

تھے اس کے بال و پر قینچی کی زد میں 
وہی تنہا فرشتے کی طرح تھا

انا انکار میں آئینہ ٹوٹا 
جو بار دوش چہرے کی طرح تھا

سلیم شہزاد


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...