Urdu Deccan

Wednesday, June 8, 2022

عارف اختر نقوی

یوم پیدائش 04 جون 1960

عہد الفت میں یہ خدشہ کب تھا 
تم سے بچھڑیں گے یہ سوچا کب تھا 

رات آئینہ جو دیکھا تو لگا 
اتنا ویراں میرا چہرہ کب تھا
 
مجھ پہ الزام لگانے والے 
تو مجھے ٹھیک سے سمجھا کب تھا 

یاد آئیں گی وہ رم جھم آنکھیں 
گھر سے چلتے ہوئے سوچا کب تھا 

اس کو نزدیک سے دیکھا عارفؔ 
آج جیسا ہے کل ایسا کب تھا 

عارف اختر نقوی



اسلم گورداسپوری

یوم پیدائش 04 جون 1942

کتنے زیادہ ہم ہیں پریشان دیکھنا
دل کا معاملہ ہے میری جان دیکھنا

اتنے زیادہ صاحبِ ایمان ہیں کہ اب
مشکل ہوا ہے صاحب ایمان دیکھنا

یہ وحشتیں ہمارا کوئی مشغلہ نہ تھیں
اب بن گیا ہے شوق یہ طوفان دیکھنا

دنیا کا ہو سفر یا مسافت عدم کی ہو
بھاری نہ ساتھ ہو کوئی سامان دیکھنا

تم ہی کہو کہ کیا یہ خدا کو پسند ہے
یوں آدمی کو بے سروسامان دیکھنا

جس کے لئے بنائی تھی یہ ساری کائنات 
کس حال میں ہے وہ یہاں انسان دیکھنا

یہ زندگی کے جتنے نشیب و فراز ہیں
لگتا ہے ان کو دور سے آسان دیکھنا

اس زندگی کے بارے میں کیا کچھ نہیں کہا
فرصت کبھی ملے میرا دیوان دیکھنا

لکھی ہے میں نے شوق سے یہ داستانِ عشق
تُم اس کا کوئی اچھا سا عنوان دیکھنا

کچھ ایسا کاروبار ہے کہتے ہیں جس کو عشق
ہے کُفر اس میں نفع و نقصان دیکھنا

اسؔلم کسی طرح بھی یہ مردانگی نہیں 
ہر زندگی کا راستہ آسان دیکھنا

اسلم گورداسپوری


 

خواجہ عمار صامت

یوم پیدائش 03 جون 1971

میں یہ کہتا ہوں کہ وہ ضبط کا دامن تھامے
وہ یہ کہتا ہے کہ رکتے نہیں آنسو میرے

خواجہ عمار صامت


 

شرف الدین ظرف

یوم پیدائش 03 جون 1964

سچ کے اب دہر میں آثار نہیں ہے بابا
بھوکا رہتا ہے جو ، مکار نہیں ہے بابا

چھین لے منہہ سے جلیبی جو غریبوں کے بھی
ایسا حاکم ہمیں درکار نہیں ہے بابا

ڈر سمایا ہے کورونا کا کچھ اس طرح یہاں
کوچۂ حسن بھی گلزار نہیں ہے بابا

سب دعا کرتے ہیں زر، کار، زمیں ، بنگلے کی
کوئی ایماں کا طلب گار نہیں ہے بابا

اک پڑوسی مرا سوتا ہے تجوری لے کر
اس کو بیوی سے کوئی پیار نہیں ہے بابا

تیرے اس شہرِ محبت میں یہی دیکھا ہے
ایک انساں بھی ملنسار نہیں ہے بابا

ظرفؔ ملت کی عمارت جو بنا دے پختہ
میری نظروں میں وہ معمار نہیں ہے بابا

شرف الدین ظرف


 

محمد عمران بشیر

یوم پیدائش 03 جون 1997

مہینوں بعد کسی نے ترا سوال کیا
یہ پہلی بار کسی نے جدا سوال کیا

یوں برقرار رہا سلسلہ سوالوں کا
جو ایک ختم ہوا دوسرا سوال کیا

تری طرف سے ہٹائی گئی توجہ مری
کہ خوامخواہ مجھے بے تکا سوال کیا

سوال کرتے ہوئے یہ خیال رکھنا کہ
برا لگے گا اگر جو برا سوال کیا

یہ ممتحن کی کہیں کوئی چال ہی نا ہو
جو اُس نے پہلے سے پوچھا ہوا سوال کیا

یہ آئینے میں کھڑا شخص کون ہے جس نے
کمال ہے کہ مجھے ہی مرا سوال کیا

تمھارے بعد سبھی سے تمھارا پوچھا ہے
یہاں وہاں جو ملا ایک سا سوال کیا

سو مانگنے کا بھی کوئی سلیقہ ہوتا ہے
فقیر نے مجھے دے کر دُعا سوال کیا

محمد عمران بشیر

 


عمر فرحت

یوم پیدائش 03 جون 1986

ہے کوئی اور بھی جہان میں کیا 
میں نہیں ہوں ترے گمان میں کیا 

تو نے فتراک ساتھ تو رکھا 
تیر بھی ہے تری کمان میں کیا
 
ایک سایا تھا دل میں وہ بھی بجھا 
رہ گیا ہے اب اس مکان میں کیا 

زیر سایہ ہے اور سبھی دنیا 
ہم نہیں ہیں تری امان میں کیا 

کوئی بھی تجھ سے بات کرتا نہیں 
زہر سا ہے تری زبان میں کیا 

عمر فرحت



Sunday, June 5, 2022

اختر جمال

یوم پیدائش 01 جون 1959

حقیقت سامنے آئے گی خوابوں کے حوالے سے
یہاں دریا ابلتے ہیں سرابوں کے حوالے سے

ہمارے بعد آوارہ بگولے رقص کرتے ہیں
تمہیں اب کون چھوتا ہے گلابوں کے حوالے سے

سلگتے ذہن کے سب راستے سیراب ہوجاتے
برس جاتا کوئی ہم پر سحابوں کے حوالے سے

ہماری صبح اپنی ہے ہماری شام ہے اپنی
ہمارا نام مت لینا کتابوں کے حوالے سے

یہاں سے اپنے خوابوں کو اکیلا چھوڑ دیتے ہیں
بہت دن جی لئے اخترؔ حسابوں کے حوالے سے

اختر جمال


 

خلش دہلوی

یوم پیدائش 02 جون 1935

وہ زندگی جو ترے پیار میں بسر نہ ہوئی 
تھی ایسی رات کہ جس کی کبھی سحر نہ ہوئی 

انہی کی چاہ میں یہ حال ہو گیا میرا 
مگر انہی کو مرے حال کی خبر نہ ہوئی 

سلگتی راہوں پہ سایہ تھا کس کی پلکوں کا 
یہ کون کہتا ہے اس سمت وہ نظر نہ ہوئی 

ہر ایک موڑ پہ دل نے تجھے تلاش کیا 
کسی بھی لمحے تمنا یہ منتشر نہ ہوئی 

خلشؔ یہ پوچھتا پھرتا ہے آبشاروں سے 
کہ کیوں یہ وادئ گل تیری رہ گزر نہ ہوئی

خلش دہلوی


 

رہبر جونپوری

یوم پیدائش 02 جون 1939

تخت نشینوں کا کیا رشتہ تہذیب و آداب کے ساتھ
یہ جب چاہیں جنگ کرا دیں رستم کی سہراب کے ساتھ

ظلم و تشدد کے شیدائی شاید تجھ کو علم نہیں
تیرے بھی سپنے ٹوٹیں گے میرے ہر اک خواب کے ساتھ

کنکر پتھر کی تعمیریں مذہب کا مفہوم نہیں
ذہنوں کی تعمیر بھی کیجے گنبد اور محراب کے ساتھ

قاتل بن کر وہ بھی کھڑے ہیں آج ہمارے پیش نظر
ہم نے جن کو عزت بخشی اعزاز و القاب کے ساتھ

اردو کو خود خون بہا کر جوڑ رہے ہیں رشتے لوگ
غالبؔ و مومنؔ منشیؔ و ملاؔ چکبستؔ و سیمابؔ کے ساتھ

رفتہ رفتہ ڈوب رہے ہیں میخانے ویرانی میں
جب سے میری پیاس کا رشتہ قائم ہے زہراب کے ساتھ

یاروں کی طوطا چشمی کا آخر اتنا شکوہ کیوں
رہبرؔ تم بھی کب مخلص تھے خود اپنے احباب کے ساتھ

رہبر جونپوری



محمد اسماعیل بدر

یوم پیدائش 01 جون 1907

مرثیہ بر وفات
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عباس علی خان بیخود
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل بسا آج ایک صاحبِ دل
مردِ مومن، شریف ، زندہ دل

پیکرِ حسن خلق و مہر و وفا
باعثِ انبساط و راحتِ دل

بات اس کی تھی موتیوں کی لڑی
ذات اس کی تھی جوہرِ قابل

رونقِ بزمِ دوستاں تھا وہ
جانِ مجلس تھا زینتِ محفل

حق گو ایسا کہ عین محفل میں
ڈھا دیا کرتا نقشِ ہر باطل

وقتِ امداد دوستوں کے لیے
مستعد رہتا تھا بجان و دل

مضطرب تھا وہ دل کے دورے سے
آج اس کو سکوں ہوا حاصل

”مغفرت کی دعا کر اسمٰعیل“
کہہ کے یہ چل بسا وہ صاحبِ دل

ہم سبق ، ہم خیال و ہم پیشہ
ہمدم و ہم رکاب ہم منزل

اے خدا رحم ، روحِ بے خودؔ پر
بارشِ رحمت اپنی کر نازل

یاد بے خودؔ کی کرتی ہے بیتاب
تاب لانے کی سعی کر اے دل

رشکِ پرویز و افتخارِ جمیل
ہوگیا ہم کنارِ ربِ جلیل

محمد اسماعیل بدر



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...