Urdu Deccan

Wednesday, June 8, 2022

محشر فیض آبادی

مرے کھانے سے گھبرایا بہت ہے 
وہ دعوت دے کے پچھتایا بہت ہے 
لفافہ دیکھ کر بولا وہ مجھ سے 
دیا کم ہے میاں کھایا بہت ہے 

محشر فیض آبادی

جاوید انور

یوم پیدائش 06 جون 1975

خاک سے کوئی بھی کیا لے جائےگا
خون دے گا اور دعا لے جائے گا

انفرادیت کا لمحہ پل دو پل
قطرے کو دریا بہا لے جائے گا

جسم کو دے کر حرارت اک نئی
روح سے لپٹی قبا لے جائے گا 

اک ہوس کی دھوپ دے گا وہ ہمیں 
اور آنکھوں کی ضیا لے جائےگا

یا تو وہ صورت بدل دے گا مری
یا وہ میرا آئینہ لے جائےگا

جاوید انور


 

حامی گورکھپوری

یوم پیدائش 06 جون 1936

ہمارے خون کا منظر تمہیں مبارک ہو 
یہ سرخئی لبِ خنجر تمہیں مبارک ہو

چراغ بن کے یہ جلتا رہے گا محشر تک 
سیاہ زادو!مرا سر تمہیں مبارک ہو 

مری انا کو جبیں کی شکن پسند نہیں 
تمہارے حسن کا تیور تمہیں مبارک ہو 

انا خرید نہ پائو گے ہم غریبوں کی 
امیرِ شہر ہو تم زر تمہیں مبارک ہو

مری جبیں کا پسینہ سنبھال کر رکھنا
مرے نصیب کا گوہر تمہیں مبارک ہو

حامی گورکھپوری


 

جاوید مجیدی

یوم پیدائش 06جوں 1970

یوں اپنے آپ کو تم بے وقار مت کرنا
امیر زادوں میں اپنا شمار مت کرنا

کسی کا شیشئہ دل چور چور ہو جائے
کبھی بھی ایسی روش اختیار مت کرنا

مری وفا مرے اخلاص کا تقاضہ ہے
کبھی وفائوں کی سرحد کو پار مت کرنا

فسانہ ہائے محبت کی آبرو رکھنا
کبھی بھی آنکھوں کو تم اشک بار مت کرنا

کسک کی لذتیں دل کو پسند ہیں میرے
چلانا تیر مگر دل کے پار مت کرنا

نواحِ جاں میں رہتا ہے دور رہ کر بھی
یہ انکشافِ وفا زینہار مت کرنا

اگر میں لوٹ کے آجائوں تو غنیمت ہے
مسافروں کا مگر انتظار مت کرنا

بھڑک اٹھے نہ کہیں برف زار میں شعلے
گلوں کی وادی کو تم خار زار مت کرنا

وہ لاکھ سونے کا بھی روپ دھار کر آئیں
فریب کاروں کا تم اعتبار مت کرنا

مجھے ملا ہے بزرگوں سے یہ سبق جاویدؔ
کسی کا دامنِ دل تار تار مت کرنا

جاوید مجیدی


 

ایم ائی ظاہر

یوم پیدائش 06 جون 1972

ادھ کھلی آنکھ جو اک خواب دکھاتی ہے ہمیں
زندگی تیرے کئی روپ بتاتی ہے ہمیں

بے وفائی میں نہیں آپ کا ثانی کوئی
 بات یہ کہتے ہوئے شرم سی آتی ہے ہمیں
 
دور جاتےہیں تو لوٹ کے آجاتے ہیں
زندگی آپ کے قدموں میں بلاتی ہے ہمیں

آپ انکار پہ انکار تو کرتے ہیں مگر
آنکھ میں کوئی تمنا نظر آتی ہے ہمیں

کس کی آمد سے معطر ہیں فضائیں ظاہر
کیسی خوشبو ہے جو پردے سے بلاتی ہے ہمیں

ایم ائی ظاہر


 

مولانا علیم اختر مظفر نگری

یوم پیدائش 06 جون 1944

نگہ شوق کا پیغام مجھے لوٹا دو
میرا جام مئے گل فام مجھے لوٹا دو

صبح تو عالم آواز شکست شب ہے
میری سنولائی ہوئی شام مجھے لوٹا دو

میں تو عادی ہوں خود اپنا ہی لہو پینے کا
لاؤ خالی ہی سہی مجھے جام لوٹا دو

چاندنی رات کی ناگن سے نہ ڈسواؤ مجھے
میری قسمت کی سیہ شام مجھے لوٹا دو

دوستو آپ کے کچھ کام نہیں آئے گی
لاؤ یہ شورش آلام مجھے لوٹا دو

میں نے اس بھولنے والے کو لکھا ہے اَخترؔ
میرا اندیشۂ انجام مجھے لوٹا دو

مولانا علیم اختر مظفر نگری


 

رتن ناتھ سرشار

یوم پیدائش 05 جون 1846

جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح
جھلکا جھلکا سپیدۂ صبح

تارے چھپتے ہیں جھلملا کر
ہے نور سا جلوہ گر فلک پر

بھینی بھینی مہک گلوں کی
اور نغمہ زنی وہ بلبلوں کی

وقت صحرا اور تنگ ہوا ہے
بے مے سب کرکرا مزا ہے

اک چلو کے دینے میں یہ تکرار
اٹھو جاگو سحر ہوئی یار 

دریا کی طرف چلے نہانے
غٹ پریوں کے زنان خانے

مرغان چمن یہ نکتہ رانی
چوں برہمنان یہ بید خوانی

نوبت رنگت جمنا رہی ہے
شہنشائے مزہ دکھا رہی ہے

رتن ناتھ سرشار



شہزادہ کلیم یونس

یوم پیدائش 05 جون

یہ جو مجھ خاک سے نسبت ہے مدینے کی خاک
خاک مت جان کہ جنت ہے مدینے کی خاک 

میں خیالات میں ماتھے پہ لگا لیتا ہوں 
اس عقیدے سے کہ حکمت ہے مدینے کی خاک

ہر مسلمان کی خواہش ہے مدینے مرنا
ہر مسلمان کی شوکت ہے مدینے کی خاک

ہم گنہ گار غلاموں کی رہائی کے لیے 
ہر عدالت میں ضمانت ہے مدینے کی خاک

بادشاہی کی تمنا ہے نہ محلوں کی کلیم
میری تو ایک ہی حسرت ہے مدینے کی خاک

شہزادہ کلیم یونس

 

اشہر ندیمی

یوم پیدائش 05 جون 1966

نئے زمانے کی رفتار دیکھ کر چلیے
مگر ہے راستہ دشوار دیکھ کر چلیے

میں جانتا ہوں کہ یہ شہر ہے مگر پھر بھی
ملیں گے بھیڑیے خونخوار دیکھ کر چلیے

یہ سر پہ آپ کے اجداد کی امانت ہے
گرے نہ سر سے یہ دستار دیکھ کر چلیے

نہ سر اٹھے ، جو ملے ، سر اٹھانے کی فرصت
کہ سر پہ فرض کا ہے بار دیکھ کر چلیے

کہیں نہ ایسا ہو کچھ دور چل کے پچھتائیں
کہ راستے کو کئی بار دیکھ کر چلیے

پتہ چلے تو سہی ، شہر کے ہیں کیا حالات
چلیں جو گھر سے تو اخبار دیکھ کر چلیے

مجھے خبر ہے یہ دنیا ہے ، پھر بھی آپ اس کو
سمجھ کہ حشر کا بازار دیکھ کر چلیے

سنا ہے راہ میں بوسیدہ اِک حویلی ہے
گرے نہ آپ پہ دیوار دیکھ کر چلیے

اگر ہو آرزو منزل کی آپ کو اشہر
حدِ نگاہ کے اس پار دیکھ کر چلیے

اشہر ندیمی


 

نوراحمد جانی

یوم پیدائش 04 جون 1986

ہوا ہے جب سے تو اوجھل مری نگاہوں سے
میں آئینوں میں سدا عکس ڈھونڈتا ہوں ترا

نوراحمد جانی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...