Urdu Deccan

Saturday, June 25, 2022

کاشف علی کاشف

یوم پیدائش 17 جون 1978

دلوں پر حکمرانی ہو رہی ہے
محبت جادوانی ہو رہی ہے

یہ صحرا سانس لینے لگ گیا اور
یہ ریت اب زندگانی ہو رہی ہے

ندی نے گیت ایسا گنگنایا
کہ رُت بھی پانی پانی ہو رہی ہے

یہ نیلاہٹ ہے آب و گُل میں کیسی
زمیں کیا آسمانی ہو رہی ہے

بدلتا جا رہا ہے عشق کاشف
وہ دیوانی ، دیوانی ہو رہی ہے

کاشف علی کاشف



اختر رضا سلیمی

یوم پیدائش 16جون 1974

تمہارے ہونے کا شاید سراغ پانے لگے 
کنار چشم کئی خواب سر اٹھانے لگے 

پلک جھپکنے میں گزرے کسی فلک سے ہم 
کسی گلی سے گزرتے ہوئے زمانے لگے 

مرا خیال تھا یہ سلسلہ دیوں تک ہے 
مگر یہ لوگ مرے خواب بھی بجھانے لگے 

نجانے رات ترے مے کشوں کو کیا سوجھی 
سبو اٹھاتے اٹھاتے فلک اٹھانے لگے 

وہ گھر کرے کسی دل میں تو عین ممکن ہے 
ہماری در بدری بھی کسی ٹھکانے لگے 

میں گنگناتے ہوئے جا رہا تھا نام ترا
شجر حجر بھی مرے ساتھ گنگنانے لگے 

حدود دشت میں آبادیاں جو ہونے لگیں 
ہم اپنے شہر میں تنہائیاں بسانے لگے 

دھواں دھنک ہوا انگار پھول بنتے گئے 
تمہارے ہاتھ بھی کیا معجزے دکھانے لگے 

رضاؔ وہ رن پڑا کل شب بہ رزم گاہ جنوں 
کلاہیں چھوڑ کے سب لوگ سر بچانے لگے

اختر رضا سلیمی



اقبال ماہر

یوم پیدائش 16 جون 1919

 گل کی خوشبو کی طرح آنکھ کے آنسو کی طرح 
دل پریشان ہے گرد رمِ آہو کی طرح

زلف گیتی کو بھی آئینہ و شانہ مل جائے
تم سنور جاؤ جو آرائشِ گیسو کی طرح

رقص کرتا ہے زر و سیم کی جھنکار پہ فن
مرمریں فرش پہ بجتے ہوئے گھنگرو کی طرح

آج بھی شعبدۂ اہلِ ہوس ہے انصاف
 دست بقّال میں پُرکار ترازو کی طرح 

آج یہ شام ہے مسموم دھوئیں کی مانند
کل یہی وقت تھا مہکے ہوئے گیسو کی طرح

 جو گل اندام مکینوں کو ترستے ہیں ہنوز
 شہر میں کتنے کھنڈر ہیں مرے پہلو کی طرح
 
 مدتوں ضبطِ محبت نے سنبھالا ہم کو
 تیرا دامن جو ملا گر گئے آنسو کی طرح
 
توڑ دیتی ہے سیاہ فام فضاؤں کا جمود
 یاد آکر تری اُڑتے ہوئے جگنو کی طرح
 
 ان گنت موڑ، صعوباتِ سفر راہ طویل
 کون اب دے گا سہارا ترے بازو کی طرح
 
محشرستانِ سکوں ہے مری ہستی ماهر
کسی شہباز کے ٹوٹے ہوئے بازو کی طرح

 اقبال ماہر

آفاق مرزا آفاق

یوم پیدائش 15 جون 1942

جو غم نہ ہوتا تو کیا لذتِ خوشی ہوتی
بجز نفس کے یہ بے کیف زندگی ہوتی

نہ ہوتا بلبلِ دل سوختہ کو گل کا خیال
نگاہ روئے خزاں پر نہ جو جمی ہوتی

بجا کیا جو چھپا رکھا یوں زمانے سے
ظہورِ عشق جو ہوتا تو پھر ہنسی ہوتی

سمجھ ہی لیتا زمانہ جو رازِ الفت تو
نہ بر تری نہ ہی احساسِ کمتری ہوتی

بجھا بجھا سا ہے کیوں جانے زخمِ دل کا چراغ
لہو پلاتے تو کچھ دیر روشنی ہوتی

خزاں نے لوٹا نہ ہوتا اگر چمن آفاقؔ
لبوں پہ غنچئہ دل سوز کے ہنسی ہوتی

آفاق مرزا آفاق 



امام احمد رضا خان بریلوی ؒ

یوم پیدائش 14جون 1856

یا الٰہی! ہر جگہ تیری عطا کا ساتھ ہو
جب پڑے مشکل شہِ مشکل کشا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! بھول جاؤں نزع کی تکلیف کو
شادیِ دیدارِ حُسنِ مصطفیٰ ؐکا ساتھ ہو

یا الٰہی! گورِ تیرہ کی جب آئے سخت رات
اُن کے پیارے منھ کی صبحِ جاں فزا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب پڑے محشر میں شورِ دار و گیر
امن دینے والے پیارے پیشواکا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب زبانیں باہر آئیں پیاس سے
صاحبِ کوثر شہِ جود و عطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! سرد مہری پر ہو جب خورشیدِ حشر
سیّدِ بے سایہ کے ظِلِّ لِوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! گرمیِ محشر سے جب بھڑکیں بدن
دامنِ محبوبؐ کی ٹھنڈی ہوا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! نامۂ اعمال جب کھلنے لگیں
عیب پوشِ خلق، ستّارِ خطا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب بہیں آنکھیں حسابِ جرم میں
اُن تبسّم ریز ہونٹوں کی دُعا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب حسابِ خندۂ بے جا رُلائے
چشمِ گریانِ شفیعِ مُرتجٰی کا ساتھ ہو

یا الٰہی! رنگ لائیں جب مِری بے باکیاں
اُن کی نیچی نیچی نظروں کی حیا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب چلوں تاریک راہِ پل صراط
آفتابِ ہاشمی نور الہُدیٰ کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب سرِ شمشیر پر چلنا پڑے
رَبِّ سَلِّمْ کہنے والے غم زُدا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جو دعائے نیک میں تجھ سے کروں
قدسیوں کے لب سے آمیں رَبَّنَا کا ساتھ ہو

یا الٰہی! جب رؔضا خوابِ گراں سے سر اٹھائے
دولتِ بیدار عشقِ مصطفیٰ کا ساتھ ہو

امام احمد رضا خان بریلوی ؒ



تمنا عمادی

یوم پیدائش 14 جون 1888

ساقی گھٹا ہے صحن چمن ہے بہار ہے
اب کار خیر میں تجھے کیا انتظار ہے

تمنا عمادی

 

 

عبید اللہ علیم

یوم پیدائش 12 جون 1941

خیال و خواب ہوئی ہیں محبتیں کیسی
لہو میں ناچ رہی ہیں یہ وحشتیں کیسی

نہ شب کو چاند ہی اچھا نہ دن کو مہر اچھا
یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی

وہ ساتھ تھا تو خدا بھی تھا مہرباں کیا کیا
بچھڑ گیا تو ہوئی ہیں عداوتیں کیسی

عذاب جن کا تبسم ثواب جن کی نگاہ
کھنچی ہوئی ہیں پس جاں یہ صورتیں کیسی

ہوا کے دوش پہ رکھے ہوئے چراغ ہیں ہم
جو بجھ گئے تو ہوا سے شکایتیں کیسی

جو بے خبر کوئی گزرا تو یہ صدا دے دی 
میں سنگ راہ ہوں مجھ پر عنایتیں کیسی 

نہیں کہ حسن ہی نیرنگیوں میں طاق نہیں
جنوں بھی کھیل رہا ہے سیاستیں کیسی

نہ صاحبان جنوں ہیں نہ اہل کشف و کمال
ہمارے عہد میں آئیں کثافتیں کیسی

جو ابر ہے وہی اب سنگ و خشت لاتا ہے
فضا یہ ہو تو دلوں میں نزاکتیں کیسی

یہ دور بے ہنراں ہے بچا رکھو خود کو
یہاں صداقتیں کیسی کرامتیں کیسی

عبید اللہ علیم



زہیر کنجاہی

یوم پیدائش 13 جون 1933

جینے کی ہے امید نہ مرنے کی آس ہے 
جس شخص کو بھی دیکھیے تصویر یاس ہے 

جب سے مسرتوں کی ہوئی جستجو مجھے 
میں بھی اداس ہوں مرا دل بھی اداس ہے 

لاشوں کا ایک ڈھیر ہے گھیرے ہوئے مجھے 
آباد ایک شہر مرے آس پاس ہے 

مجھ سے چھپا سکے گی نہ اپنے بدن کا کوڑھ 
دنیا مری نگاہ میں یوں بے لباس ہے 

یاران مے کدہ مرا انجام دیکھنا 
تنہا ہوں اور سامنے خالی گلاس ہے 

اب ترک آرزو کے سوا کیا کریں زہیرؔ 
اس دشت آرزو کی فضا کس کو راس ہے

زہیر کنجاہی


 

احمد خیال

یوم پیدائش 13 جون 1979

کوئی حیرت ہے نہ اس بات کا رونا ہے ہمیں
خاک سے اٹھے ہیں سو خاک ہی ہونا ہے ہمیں

پھر تعلق کے بکھرنے کی شکایت کیسی
جب اسے کانچ کے دھاگوں میں پرونا ہے ہمیں

انگلیوں کی سبھی پوروں سے لہو رستا ہے
اپنے دامن کے یہ کس داغ کو دھونا ہے ہمیں

پھر اتر آئے ہیں پلکوں پہ سسکتے آنسو
پھر کسی شام کے آنچل کو بھگونا ہے ہمیں

یہ جو افلاک کی وسعت میں لیے پھرتی ہے
اس انا نے ہی کسی روز ڈبونا ہے ہمیں

احمد خیال



پریم دھون

یوم پیدائش 13 جون 1923

سینے میں سلگتے ہیں ارماں آنکھوں میں اداسی چھائی ہے 
یہ آج تری دنیا سے ہمیں تقدیر کہاں لے آئی ہے
 
کچھ آنکھ میں آنسو باقی ہیں جو میرے غم کے ساتھی ہیں 
اب دل ہیں نہ دل کے ارماں ہیں بس میں ہوں مری تنہائی ہے 

نا تجھ سے گلہ کوئی ہم کو نا کوئی شکایت دنیا سے 
دو چار قدم جب منزل تھی قسمت نے ٹھوکر کھائی ہے
 
کچھ ایسی آگ لگی من میں جینے بھی نہ دے مرنے بھی نہ دے 
چپ ہوں تو کلیجہ جلتا ہے بولوں تو تری رسوائی ہے

پریم دھون

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...