Urdu Deccan

Thursday, July 14, 2022

بیدل عظیم آبادی

,یوم پیدائش 01 جولائی 1907

خود محبت درد ہے اور درد کا درماں بھی ہے 
ہے یہ وہ مشکل کہ مشکل بھی ہے اور آساں بھی ہے 

عاشق ابروئے جاناں عاشق مژگاں بھی ہے 
دل میں شوق تیغ ہے ذوق لب پیکاں بھی ہے 

میرے گھر آئیں گے وہ لایا ہے مژدہ نامہ بر 
یہ پیام زیست بھی ہے موت کا ساماں بھی ہے 

سچ بتا پروانہ کس کی آتش الفت ہے تیز 
کون سوزندہ بھی ہے اور کون خود سوزاں بھی ہے 

ابتدا موہوم اس کی انتہا معدوم ہے 
یہ کتاب عمر کا مضموں بھی ہے عنواں بھی ہے 

کیا بتائیں تم کو ہم نرخ متاع زندگی 
یہ کبھی بے حد گراں ہے اور کبھی ارزاں بھی ہے 

خوگر جور مسلسل ہو گئے قلب و جگر 
مجھ پر ان کا بھی کرم ہے غیر کا احساں بھی ہے 

چشم جاناں جان لیوا بھی ہے اور جاں بخش بھی 
موت کا باعث بھی ہے اور چشمۂ حیواں بھی ہے 

قطرۂ خوں جو طراز نوک مژگاں تھا کبھی 
اب وہی رنگین گوہر زینت داماں بھی ہے 

رتبۂ عالی ہمارے داغ دل کا دیکھیے 
روکش خورشید بھی رشک مہ تاباں بھی ہے 

کھینچتا ہے کیوں مرے پہلو سے تیر دل نواز 
دل کے بہلانے کا ہمدم اور کچھ ساماں بھی ہے 

یہ کشش کس کی ہے کس کا لطف ہے کس کا کرم 
آج محفل میں کسی کی بیدلؔ خوش خواں بھی ہے

بیدل عظیم آبادی



تبسم فاطمہ

یوم پیدائش 01 جولائی 1972
 نظم ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے

ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے 
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے 
خوشی کے لئے گھر ہی کافی نہیں ہے 
کہ گھر سے الگ کی بھی چاہت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
میں ویرانیوں کی اداسی کی تنہائیوں کی پسند ہوں 
جزیرے بناتی ہوں پھر توڑتی ہوں 
میں خوابوں کو آباد کرتی بھی ہوں راکھ کرتی بھی ہوں 
میں آزاد اڑتا پرندہ ہوں جس کے لئے 
آسماں کی اڑانیں بھی کم پڑ گئی ہیں 
زمیں تھم گئی ہے 
چراغوں کو جلنے کی عادت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے 
میں نادیدہ خوابوں کا احساس ہوں 
فلک تک جو گونجے وہ آواز ہوں 
دلوں تک جو پہنچے میں وہ ساز ہوں 
گھٹن قید بندش کے احساس سے کورے جذبات سے دور ہوں مطمئن 
میں سمندر ہوں بہتی ہوا اور گرجتی ہوئی موج ہوں 
میں سکندر کولمبس ہوں آزاد ہوں 
کہکشاں سے الگ کہکشاں اور بھی ہیں 
جہانوں میں کیوں خود کو میں قید رکھوں جہاں اور بھی ہیں 
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں 
میری فطرت میں میری طاقت رہی ہے 
محبت ہی صرف زندگی تو نہیں ہے 
کہ تم سے الگ بھی محبت رہی ہے 
ذرا دور چلنے کی حسرت رہی ہے

تبسم فاطمہ


 

احمد ہمدانی

یوم پیدائش 01 جولائی 1927

کچھ اس کو یاد کروں اس کا انتظار کروں
بہت سکوت ہے میں خود کو بے قرار کروں

بھروں میں رنگ نئے مضمحل تمنا میں
اداس رات کو آسودۂ بہار کروں

کچھ اور چاہ بڑھاؤں کچھ اور درد سہوں
جو مجھ سے دور ہے یوں اس کو ہم کنار کروں

وفا کے نام پہ کیا کیا جفائیں ہوتی رہیں
میں ہر لباس جفا آج تار تار کروں

وہ میری راہ میں کانٹے بچھائے میں لیکن
اسی کو پیار کروں اس پہ اعتبار کروں

یہ میرے خواب مری زندگی کا سرمایہ
نہ کیوں یہ خواب بھی میں آج نذر یار کروں

احمد ہمدانی



تلوک چند محروم

یوم پیدائش 01 جولائی 1887

دست خرد سے پردہ کشائی نہ ہو سکی
حسن ازل کی جلوہ نمائی نہ ہو سکی

رنگ بہار دے نہ سکے خارزار کو
دست جنوں میں آبلہ سائی نہ ہو سکی

اے دل تجھے اجازت فریاد ہے مگر
رسوائی ہے اگر شنوائی نہ ہو سکی

مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاک
مشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی

فکر معاش و عشق بتاں یاد رفتگاں
ان مشکلوں سے عہد برآئی نہ ہو سکی

غافل نہ تجھ سے اے غم عقبیٰ تھے ہم مگر
دام غم جہاں سے رہائی نہ ہو سکی

منکر ہزار بار خدا سے ہوا بشر
اک بار بھی بشر سے خدائی نہ ہو سکی

خود زندگی برائی نہیں ہے تو اور کیا
محرومؔ جب کسی سے بھلائی نہ ہو سکی

تلوک چند محروم


مناظر عاشق ہرگانوی


یوم پیدائش 01 جولائی 1948

اس کا انداز بھی چہرہ بھی غزل جیسا ہے 
وہ پڑوسی مرا لگتا بھی غزل جیسا ہے 

دیکھنے والو اسے میری نظر سے دیکھو 
یہ مرا چاند سا منا بھی غزل جیسا ہے 

دھرم کے نام پہ یہ قتل کی سازش کچھ سوچ 
تیرے ہمسائے کا بچہ بھی غزل جیسا ہے 

حسن ایسا ہے کہ دیکھو تو لگے تاج محل 
اس پہ وہ شخص سنورتا بھی غزل جیسا ہے 

پت جھڑوں سے بھی ابھرتی ہیں بہاریں عاشقؔ 
رنگ موسم کا بدلتا بھی غزل جیسا ہے

مناظر عاشق ہرگانوی


Thursday, June 30, 2022

محمودہ قریشی

یوم پیدائش 30 جون 1992

ہرگھڑی رنج سے بیزار ہوئی جاتی ہے
رہ گزر زیست کی پر خار ہوئی جاتی ہے

صرف تقدیر پہ تکیہ ہے عمل کچھ بھی نہیں 
زندگی اس لئے بیمار ہوئی جاتی ہے

یوں تو خاموش بہت رہتی ہوں لیکن مجھ میں
اک قیامت ہے جو بیدار ہوئی جاتی ہے 

رہنما جتنے تھے محمودہؔ وہ رہزن نکلے
میری منزل یونہی دشوار ہوئی جاتی ہے

محمودہ قریشی



مرتضیٰ ساحل تسلیمی

یوم پیدائش 30 جون 1953

جس کو جھوٹوں سے پیار ہوتا ہے 
وہ بڑا با وقار ہوتا ہے 

اس کا جینا بھی ہے کوئی جینا 
جو بروں میں شمار ہوتا ہے 

بے ادب ہر جگہ ہے بے عزت 
با ادب با وقار ہوتا ہے 

اس سے ہوتی ہے سب کو ہمدردی 
خود بھی جو غم گسار ہوتا ہے 

بول کر جھوٹ وہ خدا جانے 
کس لئے شرمسار ہوتا ہے 

غم کوئی ہو مگر نماز کے بعد 
دل کو حاصل قرار ہوتا ہے 

اس کو اچھا کوئی نہیں کہتا 
فیل جو بار بار ہوتا ہے

دولت دین جس کو مل جائے 
وہ بہت مال دار ہوتا ہے 

پاس کیا ہو وہ امتحان میں جو 
مدرسے سے فرار ہوتا ہے

مرتضیٰ ساحل تسلیمی



رفیق انجم

یوم پیدائش 30 جون 1950

دستِ قاتل کو اگر خاص ادا دی جائے 
پھر پسِ مرگ نہ منصف کو صدا دی جائے

درد مسکے گا تو گلزار کرے گا دل کو
ٹوٹتے رشتوں کو اے دوست دعا دی جائے

پھر جلا ڈالیں گے یادوں کے سنہرے بن کو
اب نہ شعلوں کو سرِ شام ہوا دی جائے

ان کے رک جاتے ہی رک جائے گی نبضِ ہستی
لوٹتے قدموں کو اے دوست دعا دی جائے

دل بھی اب شہر کی مانند ہوا کرتا ہے
رات ہوتے ہی ہر اک بات بھلا دی جائے

آؤ رکھ دیں کسی تابندہ سی تہذہب کی نیو
عہدِ کہنہ کی ہر اک رسم مٹا دی جائے

قہر سے ہر نئی رت کے جو بچالے انجم
ایک اک سر کو اب اک ایسی ردا دی جائے

رفیق انجم


 

صادقین

یوم پیدائش 30 جون 1930

سچائی پہ اک نگاہ کر لوں یارب 
اب درد کی حد ہے آہ کر لوں یارب 
رکھنے کو تری شان کریمی کی لاج 
معمولی سا اک گناہ کر لوں یارب

صادقین



کیفی سنبھلی

یوم پیدائش 30 جون 1960

معنی کوچۂ سلطان عرب کون سی ہے؟
دل ناداں تجھے جنت کی طلب کون سی ہے؟

عشق احمدﷺ کا کرشمہ ہے سراسر ورنہ
  یہ عبادت مری بخشش کا سبب کون سی ہے؟

جرآت جنبش مثرگاں کا نہیں اذن جہاں
 کہئے جبریل کی یہ حد ادب کون سی ہے؟

راز کھو لینگے یہ جبریلؑ و براق و رف رف
ہر سحر سے جو منور ہے وہ شب کون سی ہے؟

حاتموں کو جو سکھاتے ہیں سخاوت کا شعور
بات یہ ان کے غلاموں کو عجب کون سی ہے؟

 وہ جسے چاہیں اسے تخت نشینی دے دیں
 ان کی مرضی سے الگ مرضیِ رب کون سی ہے؟

ایک سے لگتے ہیں سب شاہ و گدا اے کیفی 
ان کے گھر فوقیت نام و نسب کون سی ہے؟

کیفی سنبھلی



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...