Urdu Deccan

Sunday, July 31, 2022

کیفی حیدرآبادی

یوم پیدائش 22 جولائی 1880

وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے
حسن بار چشم ہے نغمہ وبال گوش ہے

میں کہوں تو کیا کہوں اب وہ کہے تو کیا کہے
دے کے دل خاموش ہوں وہ لے کے دل خاموش ہے

اے وفور شادمانی یہ سمجھ لینے تو دے
کیا ہمیں ہیں جس سے وہ ہم بزم ہم آغوش ہے

اس طرف دل پر جگر پر اس طرف رہتا ہے ہاتھ
اپنی ہر کروٹ میں اک معشوق ہم آغوش ہے

تار اس کا ٹوٹنے پائے نہ کیفیؔ حشر تک
دامن اشک ندامت جرم عصیاں پوش ہے

کیفی حیدرآبادی



عاجز سونگڑوی

یوم وفات 21 جولائی 2017
 
بیتے لمحوں کے خیالات حضر میں رکھنا
اک نئی سوچ کی خوشبو کو سفر میں رکھنا

تیز لہجے میں نہ مانگو نہ ہی فریاد کرو
چپکے چپکے ہی دعاؤں کو اثر میں رکھنا

لوگ وہ کیسے تھے جن کا تھا کشادہ سینہ
روز مہمانوں کو لاکر انھیں گھر میں رکھنا

ڈھونڈتے رہنا فلک چھونے کی راہیں عاجزؔ 
تم یقیں اپنا مگر خاک بسر میں رکھنا

عاجز سونگڑوی



آشا پربھات

یوم پیدائش 02 جولائی 1948

ہر لمحہ چاند چاند نکھرنا پڑا مجھے 
ملنا تھا اس لئے بھی سنورنا پڑا مجھے 

آمد پہ اس کی پھول کی صورت تمام رات 
ایک اس کی رہ گزر پہ بکھرنا پڑا مجھے 

کیسی یہ زندگی نے لگائی عجیب شرط 
جینے کی آرزو لئے مرنا پڑا مجھے 

ویسے تو میری راہوں میں پڑتے تھے میکدے 
واعظ تری نگاہ سے ڈرنا پڑا مجھے 

آئینہ ٹوٹ ٹوٹ کے مجھ میں سما گیا 
اور ریزہ ریزہ ہو کے بکھرنا پڑا مجھے

آشا پربھات


 

عدنان محسن

یوم پیدائش 21 جولائی 1985

اسم بن کر ترے ہونٹوں سے پھسلتا ہوا میں 
برف زاروں میں اتر آیا ہوں جلتا ہوا میں 

اس نے پیمانے کو آنکھوں کے برابر رکھا 
اس کو اچھا نہیں لگتا تھا سنبھلتا ہوا میں 

رات کے پچھلے پہر چاند سے کچھ کم تو نہ تھا 
دن کی صورت تری بانہوں سے نکلتا ہوا میں 

تیرے پہلو میں ذرا دیر کو سستا لوں گا 
تجھ تک آ پہنچا اگر نیند میں چلتا ہوا میں 

میری رگ رگ میں لہو بن کے مچلتی ہوئی تو 
تیری سانسوں کی حرارت سے پگھلتا ہوا میں 

وہ کبھی دھوپ نظر آئے کبھی دھند لگے 
دیکھتا ہوں اسے ہر رنگ بدلتا ہوا میں

عدنان محسن



Saturday, July 30, 2022

عبدالرحمان مومن

یوم پیدائش 21 جولائی 1996

زمانے کو زمانے کی پڑی ہے 
ہمیں وعدہ نبھانے کی پڑی ہے 

یہ دنیا چاند پر پہنچی ہوئی ہے 
تجھے لاہور جانے کی پڑی ہے 

ذرا دیکھو ادھر میں جل رہا ہوں 
تمہیں آنسو چھپانے کی پڑی ہے 

فسانہ ہی حقیقت بن گیا ہے 
حقیقت کو فسانے کی پڑی ہے 

ابھی جو شعر لکھا بھی نہیں ہے 
ابھی سے وہ سنانے کی پڑی ہے 

ترے مہمان واپس جا رہے ہیں 
تجھے مہمان خانے کی پڑی ہے 

وہ تیرے دل میں آ بیٹھا ہے مومنؔ 
تجھے دیوار ڈھانے کی پڑی ہے

عبدالرحمان مومن



شمس جالنوی

یوم وفات 21 جولائی 2020

زرد زرد چہرے ہیں زخم دل کے گہرے ہیں
وقت ہے تماشائی وقت ہے تماشائی

وہ تسلی دیتے ہیں زخم پر نمک رکھ کر
خوب ہے مسیحائی خوب ہے مسیحائی

وقت کے مسیحائوں ناپ کر بتا دینا
تم غموں کی گہرائی تم غموں کی گہرائی

تم نے کیوں ورق اُلٹے داستان ماضی کے
درد نے لی انگڑائی در د نے لی انگڑائی


شمس جالنوی

 

آنند بخشی

یوم پیدائش 21 جولائی 1930
گیت

آیا ہے مجھے پھر یاد وہ ظالم گزرا زمانہ بچپن کا 
ہائے رے اکیلے چھوڑ کے جانا اور نہ آنا بچپن کا 

وہ کھیل وہ ساتھی وہ جھولے وہ دوڑ کے کہنا آ چھو لے 
ہم آج تلک بھی نہ بھولے وہ خواب سہانا بچپن کا 

اس کی سب کو پہچان نہیں یہ دو دن کا مہمان نہیں 
مشکل ہے بہت آسان نہیں یہ پیار بھلانا بچپن کا
 
مل کر روئیں فریاد کریں ان بیتے دنوں کو یاد کریں 
اے کاش کہیں مل جائے کوئی جو میت پرانا بچپن

آنند بخشی

https://youtu.be/BiCkqhmxtbQ


فیض محمد شیخ

یوم پیدائش 20 جولائی 1998

تو کیا کریں گے محبت میں وہ ملا نہیں جب
ہمارے ہونے نہ ہونے کا فائدہ نہیں جب

وہ کائنات کی پرتوں کو کھولنے بیٹھا
کہ اُس کے ہاتھ سے بندِ قبا کُھلا نہیں جب

کہیں یہ سارا جہاں سنگ ہی نہ ہو جائے
طلسم آپ کی آنکھوں کا ٹوٹتا نہیں جب

ہمارے حصے میں لازم ہے کچھ تو آ جائے
وصال و ہجر سے یہ عشق ماورا نہیں جب

 یہ کیسے موڑ پہ آئے ہو لوٹ کر واپس
اُجاڑ پن کے سوا اور کچھ بچا نہیں جب

تمھاری آنکھوں سے لپٹا ہے میرے دل کا سِرا
 بکھرنے لگتے ہیں اُس دم تُو دیکھتا نہیں جب

زمین زادے کریں کیا تری بہشتوں کا
ترے زماں میں زمیں کی ہی کوئی جا نہیں جب

تو کیا خیال ہے کوئی بشر تمھارا ہے؟
غریب شخص تمھارا تو خود خُدا نہیں جب

فیض محمد شیخ



ہوش جونپوری

یوم پیدائش 20 جولائی 1940

ٹوٹ کر روح میں شیشوں کی طرح چبھتے ہیں
پھر بھی ہر آدمی خوابوں کا تمنائی ہے

ہوش جونپوری

 


ممتاز میرزا

یوم پیدائش 20 جولائی 1929

بے طرح آپ کی یادوں نے ستایا ہے مجھے 
چاندنی راتوں نے آ آ کے رلایا ہے مجھے 

آپ سے کوئی شکایت نہ زمانے سے گلہ 
میرے حالات نے مجبور بنایا ہے مجھے 

آج پھر اوج پہ ہے اپنا مقدر شاید 
آج پھر آپ نے نظروں سے گرایا ہے مجھے 

اپنے بیگانے ہوئے اور زمانہ دشمن 
بے دماغی نے مری دن یہ دکھایا ہے مجھے 

کون سے دشت میں لے آیا مجھے میرا جنوں 
مڑ کے دیکھا ہے تو کچھ خوف سا آیا ہے مجھے 

پھر ہوئے آج بہم جام گل و نغمۂ شب 
پھر مرے ماضی نے ممتازؔ بلایا ہے مجھے 

ممتاز میرزا



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...