Urdu Deccan

Wednesday, August 24, 2022

شاہد نور

یوم پیدائش 24 اگست 1980

مجھے آنکھوں نے جل تھل کردیا ہے
مری مٹی کو دلدل کردیا ہے

مرے خوابوں کو آنکھوں میں سجاکر
کسی لڑکی نے کاجل کردیا ہے

میں اپنی ذات میں اک گلستاں تھا
تری فرقت نے جنگل کردیا ہے

کئی دریائوں نے آپس میں مل کر
سمندر کو مکمل کردیا ہے

مری بچی کی ننھی سے ہنسی نے
مرے آنسو کو صندل کردیا ہے

وہ جب گمنام تھا اچھا بھلا تھا
اُسے شہرت نے پاگل کردیا ہے

فرائض کے تقاضوں نے ہی شاہد
مرے چھالوں کو مخمل کردیا ہے

شاہد نور



حیرت بدایونی

یوم پیدائش 24 اگست 1896

اگر ساقی تسلی بخش سمجھوتا نہیں ہوتا
تو پھر تشنہ لبوں کا جوش بھی ٹھنڈا نہیں ہوتا

جو خود مختارِ گلشن ہیں وہاں ایسا نہیں ہوتا
عَناِدل کی فغاں و آہ پر پہرا نہیں ہوتا

وفورِ عیش سے ہر چند مالا مال ہے لیکن
شعورِ عاشقی انسان میں پیدانہیں ہوتا

وفاداری کے دستورالعمل ہی کو بدل ڈالے
محبت میں کسی کم بخت سے اتنا نہیں ہوتا

جب آتا ہے تو پھر طوفان پر طوفان آتا ہے
نہیں ہوتا تو برسوں فتنہ بھی برپا نہیں ہوتا

غمِ دل سے گراں تر ہے غم ِدنیا ومافیہا
یہ غم پیدا کیا جاتا ہے خود پیدا نہیں ہوتا

تمہیں انصاف سے کہہ دو مسیحا ہو کہ قاتل ہو
کہ ہر بیمار ۔ مر جاتا تو ہے اچھا نہیں ہوتا

غموں کی کوئی حد بھی ہے کہاں تک سختیاں جھیلے
کسی کا دل ہو ۔ دل ہوتا ہے ، پتھر کا نہیں ہوتا

یہاں تفریقی شیخ و برہمن اچھی نہیں ساقی
یہاں کوئی کسی کے خون کا پیاسا نہیں ہوتا

وہ بھی اک پردہ تھاحیرت جسے تم جلوہ سمجھے ہو
جو آنکھوں کو نظر آجائے وہ جلوا نہیں ہوتا

حیرت بدایونی



جیلانی کامران

یوم پیدائش 24 اگست 1926
نظم قسمت کا پڑھنے وال

میرے ہاتھ پہ لکھا کیا ہے 
عمر کے اوپر برق کا گہرا سایہ کیا ہے 
کون خفا ہے 
راہ کا بوڑھا پیڑ جھکا ہے چڑیاں ہیں چپ چاپ 
آتی جاتی رت کے بدلے گرد کی گہری چھاپ 
گرد کے پیچھے آنے والے دور کی دھیمی تھاپ 
رستہ کیا ہے منزل کیا ہے 
میرے ساتھ سفر پر آتے جاتے لوگو محشر کیا ہے 
ماضی حال کا بدلا بدلا منظر کیا ہے 
میں اور تو کیا چیز ہیں تنکے پتے ایک نشان 
عکس کے اندر ٹکڑے ٹکڑے ظاہر میں انسان 
کب کے ڈھونڈ رہے ہیں ہم سب اپنا نخلستان 
ناقہ کیا ہے محمل کیا ہے 
شہر سے آتے جاتے لوگو دیکھو راہ سے کون گیا ہے 
جلتے کاغذ کی خوشبو میں غرق فضا ہے 
چاروں سمت سے لوگ بڑھے ہیں اونچے شہر کے پاس 
آج اندھیری رات میں اپنا کون ہے راہ شناس 
خواب کی ہر تعبیر میں گم ہے اچھی شے کی آس 
دن کیا شے ہے سایہ کیا ہے
گھٹتے بڑھتے چاند کے اندر دنیا کیا ہے 
فرش پہ گر کر دل کا شیشہ ٹوٹ گیا ہے 

جیلانی کامران

 

سعید الزماں عباسی

یوم پیدائش 23 اگست 1923

یہاں درخت تھے سایہ تھا کچھ دنوں پہلے 
عجیب خواب سا دیکھا تھا کچھ دنوں پہلے 

یہ کیا ہوا کہ اب اپنا بھی اعتبار نہیں 
ہمیں تو سب کا بھروسا تھا کچھ دنوں پہلے 

ہمارے خون رگ جاں کی لالہ کاری سے 
جو آج باغ ہے صحرا تھا کچھ دنوں پہلے 

اسی افق سے نیا آفتاب ابھرے گا 
جہاں چراغ جلایا تھا کچھ دنوں پہلے 

ابھی قریب سے گزرا ہے اجنبی کی طرح 
وہ ایک شخص جو اپنا تھا کچھ دنوں پہلے 

جنہیں دریدہ دہن کہہ کے ہونٹ سیتے ہو 
انہیں سخن کا سلیقہ تھا کچھ دنوں پہلے

سعید الزماں عباسی



اکرام کاوش

یوم وفات 23 اگست 2020
نظم قحط پڑا ہے انسان کا 

صدیاں صدیاں بہت گئیں تو بھید کھلا
قحط پڑا ہے انسان کا 
ریت رواج کہاں تک یکساں چلتے
وہ تو بدلتے رہتے ہیں
ان کو گلے کا ہار بنانا ٹھیک نہیں
لحن سحر آگیں میں جب تک گیت سنانے والوں نے
رس گھولا تھا کانوں میں
تب تک روح بھی بالیدہ تھی
دل بھی تھا مسرور بہت
اب یہ حال چوراہے پر شور ہے غل غپاڑہ ہے
آدمیوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہے
پھر بھی مجھے لگتا ہے 
قحط پڑا ہے انسان کا 

اکرام کاوش


عزیز بانو داراب وفا

یوم پیدائش 23 اگست 1926

پھونک دیں گے مرے اندر کے اجالے مجھ کو
کاش دشمن مرا قندیل بنا لے مجھ کو

ایک سایہ ہوں میں حالات کی دیوار میں قید
کوئی سورج کی کرن آ کے نکالے مجھ کو

اپنی ہستی کا کچھ احساس تو ہو جائے مجھے
اور نہیں کچھ تو کوئی مار ہی ڈالے مجھ کو

میں سمندر ہوں کہیں ڈوب نہ جاؤں خود میں
اب کوئی موج کنارے پہ اچھالے مجھ کو

تشنگی میری مسلم ہے مگر جانے کیوں
لوگ دے دیتے ہیں ٹوٹے ہوئے پیالے مجھ کو

عزیز بانو داراب وفا

زاہد امر

یوم پیدائش 22 اگست 1960

اک بار تو ہو جلوۂ طور آشنا نظر
کعبے کی پھر نہ چاہے زیارت ہو بعد میں

زاہد امر



محمد وسیم مخلص

یوم پیدائش 22 اگست 1989

فنا کے بعد میری باقیاتِ جاں ڈھونڈیں
پسِ حیات مجھے اہلِ دوجہاں ڈھونڈیں

بھلا دیا ہو خود اپنی ضرورتوں نے جنھیں
تو اے امید! بتا وہ تجھے کہاں ڈھونڈیں

کہاں وہ لوگ جو اب داد دیں شجاعت کی
کہ چڑھ کے دار پہ اک اور امتحاں ڈھونڈیں

الٰہی خیر تیرے ناشناس بندوں کی
ترے حضور پہنچ کر بھی یہ اماں ڈھونڈیں

نظر نے حشر سی وہ بے قراریاں دیکھیں
مکیں زمین کے سارے ہی آسماں ڈھونڈیں

دلوں کا زہر فضاؤں میں گھل گیا مخلصؔ
چلو! کہ چل کے خیابانِ لامکاں ڈھونڈیں

محمد وسیم مخلص
 


Tuesday, August 23, 2022

کویتا کرن

یوم پیدائش 21 اگست 1963

آتے جاتے لوگ ہمیں کیوں دوست پرانے لگتے ہیں 
چاہت کی اس حد پر یارب ہم تو دوانے لگتے ہیں 

پھر سے بہاریں لے کر آئی مہکی ہوئی سی یادوں کو 
آ بھی جاؤ اب ملنے کے اچھے بہانے لگتے ہیں 

دل کرتا ہے پھر سے دیکھوں کھوئے ہوئے اس منظر کو 
پیاسی آنکھوں کو وہ نظارے کتنے سہانے لگتے ہیں 

خوشبو وہی ہے رنگ وہی ہے آج وفا کے پھولوں کا 
آپ کیا آئے پھر سے چمن میں دن وہ پرانے لگتے ہیں 

ٹوٹی ہوئی سی ایک کرنؔ ہے کافی اندھیرے والوں کو 
گھر میں اجالا ڈھونڈھنے والے گھر کو سجانے لگتے ہیں

کویتا کرن



سرفراز زاہِد

یوم پیدائش 21 اگست 1987
نَعتِ رَسُولِ صلی اللہ علیہ وسلم

فریاد رَس ہُوں نَعتیہ اَشعار کے لئے
سِیرت پڑھوں میں آپ کے اَفکار کے لئے

دِل مُضطرب ہے روزِ اَزل سے مِرا حُضُور
جَنَّت مِثال کُوچہ و بازار کے لئے

قَلب و نَظر کا نُور ہے طیبہ کی خاکِ پاک
ذَرّے ہیں اِس کے دِیدہ ء بیدار کے لئے

دِل میرا صِدقِ عِشقِ مُحمّد کا ہے گواہ
میری زُباں ہے آپ کے اِقرار کے لئے

سب کُچھ ہے اُن کے واسِطے پیدا کیا گیا
ُ ُ ُ سب کُچھ ہے دو جہان کے سردار کے لئے ٗ ٗ

عِشقِ رَسُولِ پاک کا بازار سج گیا
کیا کُچھ یہاں نہیں ہے خرِیدار کے لئے 

زاہِد نَبی کی نَعت نگاری کے واسِطے
قُرآن پاک دیکھ لو مَعیار کے لئے

سرفراز زاہِد



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...