Urdu Deccan

Sunday, August 28, 2022

سعد اللہ شاہ

یوم پیدائش 28 اگست 1958

یہ جمال کیا یہ جلال کیا یہ عروج کیا یہ زوال کیا 
وہ جو پیڑ جڑ سے اکھڑ گیا اسے موسموں کا ملال کیا 

وہ جو لمحہ لمحہ بکھر گیا وہ جو اپنی حد سے گزر گیا 
اسے فکر شام و سحر ہو کیا اسے رنجش مہ و سال کیا 

وہ جو بے نیاز سا ہو گیا وہ جو ایک راز سا ہو گیا 
جسے کچھ غرض ہی نہیں رہی اسے دست حرف سوال کیا 

ہوا ریزہ ریزہ جو دل ترا اسے جوڑ جوڑ کے مت دکھا 
وہ جو اپنے حسن میں مست ہے اسے آئنے کا خیال کیا 

وہی ہجر رات کی بات ہے وہی چاند تاروں کا ساتھ ہے 
جو فراق سے ہوا آشنا اسے آرزوئے وصال کیا 

کسی اور سے کریں کیوں گلہ ہمیں اپنے آپ سے دکھ ملا 
وہ جو درد دل سے ہو آشنا اسے دنیا بھر کا وبال کیا 

وہی گرد گرد غبار ہے وہی چاروں اور فشار ہے 
وہ جو خود کو بھی نہیں جانتا وہ ہو میرا واقف حال کیا 

اسے سعدؔ کیسا بتائیں ہم اسے کس سے جا کے ملائیں ہم 
وہ تو خود سراپا مثال ہے یہ گلاب کیا یہ غزال کیا 

سعد اللہ شاہ


 

صفدر امام قادری

یوم پیدائش 28 اگست 1965

ہمارے مشترک احساس کا منظر بھلاوا ہے 
یزیدی گردنوں پر خاک اور خنجر بھلاوا ہے 

پرندے گھونسلوں سے دور اب آکاش میں جائیں 
زمیں کی مامتا کیا ہے مقدر گر بھلاوا ہے 

ہم اب کے خشک سالی پر قناعت کر نہیں سکتے 
لہو کی فصل سے دھرتی ہوئی بنجر بھلاوا ہے 

ہماری آنکھ میں ہر روز اک امید لہرائے 
ہماری مٹھیوں میں خواب ہو بہتر بھلاوا ہے 

سڑک کے حادثے میں ہم بھی اک دن ڈھیر ہو جائیں 
یہ غزلیں شعر اور دفتر میاں صفدرؔ بھلاوا ہے 

صفدر امام قادری



امداد حُسينی

یوم وفات 27 اگست 2022
انا اللہ وانا الیہ راجعون

(نظم) کبھی یوں تھا
کبھی یوں تھا ہمارے تھے زمانے
گگن پر چاند سورج اور تارے تھے ہمارے
زمیں پر لہلہاتے کھیت سارے تھے ہمارے
تبسم خیر نظارے تھے اپنے
ترنم ریز جھرنے تھے ہمارے
مچلتی کھلکھلاتی نوجوانی تھی ہماری
ندی میں جو روانی تھی روانی تھی ہماری
دھڑکتی سانس لیتی مسکراتی گیت گاتی
زندگانی تھی ہماری
مگر اب 
کچھ نہیں ایسا
نا ہونا تھا
جسے
سب ہوگیا ویسا

امداد حُسينی



سید خالد معراج

یوم پیدائش 27 اگست 1976

میں موت سے لڑا ہوں، بدن چور چور ہے
آرام سے چلو کہ کفن چور چور ہے

اک قہقہے لگا کہ غم دل کہیں رکے
مدت سے سسکیوں کی چبھن، چور چور ہے

یہ عشق میرے صبر کے ٹکڑوں پہ ہے پلا
اب روح کا سلگتا چمن، چور چور ہے

دل میں اتر رہی ہے یوں معراج کی غزل
اردو زباں سے رنگ سخن ، چور چور ہے

سید خالد معراج



حبیب ہاشمی

یوم وفات 27 اگست 2022
انا اللہ وانا الیہ راجعون 

ایسا کہاں کہ شہر کے منظر بدل گئے 
منظر وہی ہیں صرف ستم گر بدل گئے 
چھوڑو تم انقلاب زمانہ کا تذکرہ 
وہ اور تھے جو حرف مقدر بدل گئے 
حبیب ہاشمی 


کوثر پروین کوثر

یوم پیدائش 27 اگست 1957

تجھ سے ہم عرض کریں اے دلِ شیدا کیا کیا
رنج سہتا ہے تجھے پالنے والا کیا کیا

تجھ کو دیکھا تو کئے میری نظر نے سجدے
یوں تو آنکھوں میں بسے تھے رُخِ زیبا کیاکیا

سرمئی شام سیہ رات گھنیرے بادل
ہم نے پایا ہے تری زلف کا صدقہ کیا کیا

کس کو معلوم تھا آغازِ محبت میں یہ راز
قہر ڈھائے گا محبت کا نتیجہ کیا کیا

کبھی محفل کبھی خلوت کبھی بستی کبھی دشت
خاک چھنواتا ہے وحشت کا تقاضا کیا کیا

کبھی آنکھوں سے لہو ٹپکا کبھی تلوؤں سے
گل کھلاتی رہی پھولوں کی تمنا کیا گیا

پیاس کو تیری سخاوت کا بھرم رکھنا تھا
ورنہ آنکھوں میں چھپے تھے مری دریا کیا کیا

ہوش آیا تو یہ معلوم ہوا اے کوثر
عشق انساں کو بناتا ہے تماشا کیا کیا

کوثر پروین کوثر



سید آصف دسنوی

یوم پیدائش 27 اگست 1966
عجب تضاد ہے سچائیوں سے آگے بھی 
مرا وجود ہے پرچھائیوں سے آگے بھی 

کسی کا حسن فریب‌ نشاط دیتا ہے 
نگار وقت کی انگڑائیوں سے آگے بھی 

چلا ہے تلخ حقائق کا کارواں جیسے 
مرے یقین کی بینائیوں سے آگے بھی 

جہاں وجود بھی خود کو سمیٹ لیتا ہے 
وہ اک مقام ہے تنہائیوں سے آگے بھی 

نہ جانے کیوں مجھے احساس یہ ستاتا ہے 
کہ کوئی اور ہے پرچھائیوں سے آگے بھی 

کوئی سفر میں ہے آصفؔ مرے علاوہ بھی 
مرے وجود کی سچائیوں سے آگے بھی 

سید آصف دسنوی
۔


طالب جوہری

یوم پیدائش 27 اگست 1929

جیسے ہی زینہ بولا تہہ خانے کا 
کنڈلی مار کے بیٹھا سانپ خزانے کا 

ہم بھی زخم طلب تھے اپنی فطرت میں 
وہ بھی کچھ سچا تھا اپنے نشانے کا 

راہب اپنی ذات میں شہر آباد کریں 
دیر کے باہر پہرہ ہے ویرانے کا 

بات کہی اور کہہ کر خود ہی کاٹ بھی دی 
یہ بھی اک پیرایہ تھا سمجھانے کا 

صبح سویرے شبنم چاٹنے والے پھول 
دیکھ لیا خمیازہ پیاس بجھانے کا 

بنجر مٹی پر بھی برس اے ابر کرم 
خاک کا ہر ذرہ مقروض ہے دانے کا 

طالبؔ اس کو پانا تو دشوار نہ تھا 
اندیشہ تھا خود اپنے کھو جانے کا 

طالب جوہری



اظہر ہاشمی

یوم پیدائش 26 اگست 1990

جفاؤں کی نمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 
ستم گر کی ستائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مجھے تنہائی پڑھنی ہے مگر خاموش لہجے میں 
یہی محفل کی خواہش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

مرے افکار پہ بولے بڑی تہذیب سے زاہد 
مقدر آزمائش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

یہ جو بے حال سا منظر یہ جو بیمار سے ہم تم 
سیاست کی نوازش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ادھر ہے جام ہاتھوں میں لبوں پہ مسکراہٹ ہے 
ادھر جب خوں کی بارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

ملازم بننا تھا کس کو ملازم بن گیا کوئی 
ہنر زیر سفارش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

زباں آزاد ہے جو بھی وہی تو زندہ ہے لیکن 
زباں پہ کیسی بندش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں 

عداوت کی یہاں اظہرؔ جو اک چنگاری اٹھی تھی 
وہ بنتی جاتی آتش ہے کسی سے کچھ نہیں بولیں

اظہر ہاشمی


 

کامل اختر

یوم پیدائش 26 اگست 1946

گرچہ میں بن کے ہوا تیز بہت تیز اڑا 
وہ بگولا تھا مگر میرے تعاقب میں رہا 

مجھ سے کتنوں کو اسی دن کی شکایت ہوگی 
ایک میں ہی نہیں جس پر یہ کڑا وقت پڑا 

اور تاریک مری راہ گزر کو کر دے 
تو مگر اپنی تمنا کے ستارے نہ بجھا 

اب تو ہر وقت وہی اتنا رلاتا ہے مجھے 
جس کو جاتے ہوئے میں دیکھ کے رو بھی نہ سکا 

تم سے چاہا تھا بہت ترک تعلق کر لوں 
جانے کیوں مجھ سے مری جاں کبھی ایسا نہ ہوا 

عمر بھر یاد رہا اپنی وفاؤں کی طرح 
ایک وہ عہد جسے آپ نے پورا نہ کیا 

کوئی سورج تو ملے کوئی سہارا تو بنے 
چاند کا ہاتھ مرے ہاتھ سے پھر چھوٹ گیا

کامل اختر


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...