یوم پیدائش 01 سپتمبر 1909
زندگی رین بسیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
یہ نفس عمر کے پھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
جسے نادان کی بولی میں صدی کہتے ہیں
وہ گھڑی شام سویرے کے سوا کچھ بھی نہیں
دل کبھی شہر سدا رنگ ہوا کرتا تھا
اب تو اجڑے ہوئے ڈیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاتھ میں بین ہے کانوں کی لوؤں میں بالے
یہ ریاکار سپیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
سانس کے لہرئیے جھونکوں سے پھٹا جاتا ہے
جسم کاغذ کے پھریرے کے سوا کچھ بھی نہیں
آج انسان کا چہرہ تو ہے سورج کی طرح
روح میں گھور اندھیرے کے سوا کچھ بھی نہیں
وقت ہی سے ہے شرف دست دعا کو حاصل
بندگی سانجھ سویرے کے سوا کچھ بھی نہیں
فقر مخدوم ہے لج پال ہے لکھ داتا ہے
تاج بے رحم لٹیرے کے سوا کچھ بھی نہیں