Urdu Deccan

Friday, September 23, 2022

شان بھارتی

یوم پیدائش 11 سپتمبر 1947

پڑی وہ زد کہ نگاہوں کا حوصلہ ٹوٹا 
تمہارے عکس کی جھلمل سے آئنہ ٹوٹا 

زمین شق ہوئی آنکھوں میں بھر گیا سورج 
ہمارے سر پہ اچانک وہ حادثہ ٹوٹا 

گجر کا شور اذاں کی پکار کیا کہئے 
خدا سے میرے تکلم کا سلسلہ ٹوٹا 

ہماری فکر حد آسماں سے آگے تھی 
مگر کبھی نہ روایت سے واسطہ ٹوٹا 

تغیرات کی رو کب رکی ہے روکے سے 
ہر ایک دور میں لمحوں کا زاویہ ٹوٹا

شان بھارتی



امان اللہ خاں سیفی

یوم پیدائش 09 سپتمبر 1990
صلی اللہ علیہ وسلم 

حُسینی ہو کے بھی اتنا ہنر نہیں آتا
کہ ضبطِ اشک کو بس یاں گزر نہیں آتا 

بصارتوں کا تِری نَقص یہ نہیں تو کیا؟
نظر حسین کا سر نیزے پر نہیں آتا؟

یہ بات طے ہے کہ وہ آنکھ ہی یزیدی ہے
لہو حسین کا جس کو نظر نہیں آتا

دیے بجھا کے کہے قافلے کا رہبر بھی
حسینی لوٹ کے تو کوئی گھر نہیں آتا 

ہزارہا سے لڑے اس طرح بَہَتٌر ہیں
کہ ذکر بے دلی کا مختصر نہیں آتا 

حسینی فلسفہ جس کو سمجھ نہیں آتا
سمجھ لے لاکھ وہ حق پر ہے، پر نہیں آتا!

غَمِ حسین منائے جو مصطفیٰ کی طرح
مجھے پھر اس سے نظر معتبر نہیں آتا

اگرچہ سیکھنا تو تھا حسینیت کا سبق
غَمِ حسین ہی پر سیکھ کر نہیں آتا !!

امان اللہ خاں سیفی



فیصل راجہ

یوم پیدائش 09 سپتمبر 

کیا تماشا دکھا رہی ہے مجھے
عمر بڑھ کر گھٹا رہی ہے مجھے

تم زمانے کی رونقوں میں گم
اور تنہائی کھا رہی ہے مجھے

میں جدا تجھ سے ہو چکا لیکن
تیری چاہت نبھا رہی ہے مجھے

اک لرزتا ہوا چراغ ہوں میں
سانس میری بجھا رہی ہے مجھے

اے انا تیرے مشورے کیا ہیں
خود پرستی سکھا رہی ہے مجھے

مجھ سے تیری یہ بے حسی فیصل
دیکھ پتھر بنا رہی ہے مجھے

فیصل راجہ


 

آل احمد سرور

یوم پیدائش 09 سپتمبر 1911

جس نے کیے ہیں پھول نچھاور کبھی کبھی
آئے ہیں اس کی سمت سے پتھر کبھی کبھی

ہم جس کے ہو گئے وہ ہمارا نہ ہو سکا
یوں بھی ہوا حساب برابر کبھی کبھی

یاں تشنہ کامیاں تو مقدر ہیں زیست میں
ملتی ہے حوصلے کے برابر کبھی کبھی

آتی ہے دھار ان کے کرم سے شعور میں
دشمن ملے ہیں دوست سے بہتر کبھی کبھی

منزل کی جستجو میں جسے چھوڑ آئے تھے
آتا ہے یاد کیوں وہی منظر کبھی کبھی

مانا یہ زندگی ہے فریبوں کا سلسلہ
دیکھو کسی فریب کے جوہر کبھی کبھی

یوں تو نشاط کار کی سرشاریاں ملیں
انجام کار کا بھی رہا ڈر کبھی کبھی

دل کی جو بات تھی وہ رہی دل میں اے سرورؔ 
کھولے ہیں گرچہ شوق کے دفتر کبھی کبھی

آل احمد سرور



بلال شافی

یوم پیدائش 08 سپتمبر 1999

خواب در خواب مصیبت سے نکلنا ہے مجھے
یعنی خود اپنی شکایت سے نکلنا ہے مجھے

اتنا آساں تو نہیں اس سے نکلنا لیکن
جس طرح بھی ہو محبت سے نکلنا ہے مجھے

یوں مقفل ہوا بیٹھا ہوں کسی کمرے میں 
جیسے کمرے کی اجازت سے نکلنا ہے مجھے

چھوڑ آیا ہوں ترے شہر میں آنکھیں اپنی
اب کسی اور اذیت سے نکلنا ہے مجھے

بے وجہہ دشمنوں پہ ٹوٹ رہا ہوں شافی
اور اپنوں کی حراست سے نکلنا ہے مجھے

بلال شافی



حنیف کیفی

یوم پیدائش 08 سپتمبر 1934

سوہانِ روح شورشِ انفاس چھین لے
 اللہ میری شدتِ احساس چھین لے

دل سے خیال و خواب کی بو باس چھین لے
جوبے اساس ہو وہ ہر اک آس چھین لے

دے مجھ کو میرے آج میں جینے کا حوصلہ
کل کے حسین ہونے کا احساس چھین لے

اک بارسیرکر کے مجھے کردے بے نیاز
 یہ روز روز بڑھتی ہوئی پیاس چھین لے

کیفی کو حوصلہ دے سفر ختم ہو بخیر
یارب شکستہ پائی کا احساس چھین کے

حنیف کیفی



ماہ طلعت زاہدی

یوم پیدائش 08 سپتمبر 1953

اس کی آنکھوں میں اک سوال سا تھا 
میرے دل میں کوئی ملال سا تھا 

دھل گیا آنسوؤں میں سارا وجود 
عشق میں یہ عجب کمال سا تھا 

جسم کی ڈال پر جھکا تھا خواب 
روح سرشار دل نہال سا تھا 

گفتگو کر رہی تھی خاموشی 
ہجر کی راہ میں وصال سا تھا 

خواہشیں ہر گھڑی عروج پہ تھیں 
وقت کو ہر گھڑی زوال سا تھا 

میں بھی تھی آشنا روایت سے 
اس کو بھی ضبط میں کمال سا تھا 

خواب در خواب تھیں ملاقاتیں 
درد دل وجہ اندمال سا تھا 

آئنہ بن گیا ہے میرے لئے 
ایک چہرہ کہ بے مثال سا تھا

ماہ طلعت زاہدی



کنول سیالکوٹی

یوم پیدائش 07 سپتمبر 1925

شمع کی لو سے کھیلتے دیکھے ہیں میں نے پروانے دو
اک تو موت سے کھیل رہا ہے اک کہتا ہے جانے دو

میرے بدن پر تم برساؤ پیار کی شبنم حسن کی آگ
یوں گھل مل کر ایک نظر سے ہم پڑھ لیں افسانے دو

جن پر جان لٹا دی میں نے وہ ہی مجھ سے برہم ہیں
رونے پر پابندی ہے تو قہقہہ ایک لگانے دو

تم نے پلائی جتنی پلائی دیکھو ہیں پیاسے رند ابھی
ساقی گری سے ہاتھ نہ کھینچو سب کی دعا لو آنے دو

مے سے میں توبہ کر لوں گا یہ لو میری توبہ ہے
پہلے میرے ہاتھوں میں اپنی آنکھوں کے مے خانے دو

اس کا کام ہے کہتا رہنا اپنا کام ہے سن لینا
واعظ بھی اپنا ہے کنولؔ تم وعظ اسے فرمانے دو

کنول سیالکوٹی



Wednesday, September 21, 2022

لاریب کاظمی

یوم پیدائش 06 سپتمبر

اُسے مجھ سے محبت ہے! نہیں ہے! کیا پتہ کیا ہے
خدایا! پھٹ رہا ہے سر مرا یہ سلسلہ کیا ہے؟

میں اکثر سوچتی رہتی تھی آخر مفلسی کیا ہے
گنوایا اس کو تو آخر سمجھ میں آگیا کیا ہے

مجھے محفل میں ہنسنا ہے کہ تنہائی میں رونا ہے
مریضِ ہجر کی مولا بتا تُو ہی دوا کیا ہے 

ہے ماتم آج کیوں برپا گلستاں میں ، ارے یارو
کوئی جا کر خبر لو پھول کو آخر ہوا کیا ہے

چلی جاؤں گی سب کچھ چھوڑ کر اک دن ، محبت بھی
یہ دل ، یہ روح سب تیرا ہے میری جاں ، مرا کیا ہے

لگا ڈالی تھی میں نے آگ تیری ہر نشانی کو 
مگر تصویر بچ نکلی تری ، تو پھر جلا کیا ہے؟

بلا کے ہم بہادر تھے ، مگر میدانِ الفت میں
محبت ہار کے جانا کہ آخر حوصلہ کیا ہے

اندھیری بزم میں ، آنے سے ان کے روشنی پھوٹی
صدا گونجی ، اے شمس الرب ، ترے آگے دیا کیا ہے؟

لاریب کاظمی


 

ڈاکٹر نزہت شاہ

یوم پیدائش 06 سپتمبر 
نعتِ رسول مقبول

اے رسولِ کریم اے شہہِ مُرسلیں
زاہد و عابد و شافع ِ مزنبیں

آپ کا نام ہے باعثِ زندگی
شاہِ کون و مکاں رحمت العالمیں

آپ ! معراج کے تاجور یا نبی
شاہدِ کبریا ! آپ دل کا یقیں

آپ کی ہی طلب چاند ، تاروں کو ہے
آپ کے نام سے آسماں اور زمیں

کوئے سرکار کی جستجو میں رہوں
اب تو یہ دل کہیں اور لگتا نہیں

میرے سرکار ! نورالھُدیٰ آپ ہیں 
  آپ کی جوت سے جگمگائے زمیں 

ڈاکٹر نزہت شاہ


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...