تجھ کو چھوتے ہوئے جو باد صبا آئی ہے
ایسی خوشبو کی جہاں بھر میں پذیرائی ہے
تیرا مسکن ہے گلابوں کی سہانی بستی
میرے رہنے کو فقط گوشہ تنہائی ہے
ہے پذیرائی تیرے نقشِ قدم کی ہر سو
میرا ہونا ہی مجھے باعثِ رسوائی ہے
یاخدا خیر خدا خیر خدا خیر کرے
تجھ کو سوچا تو طبیعت میری گھبرائی ہے
آئینہ دیکھا تو چہرے کے تغیّر کے سبب
دل کے ہم راہ مری آنکھ بھی بھر آئی ہے
زندگی جبر کی تمثیل ہوئی تمثیلہ
کوئی ڈھولک ہے نہ سکھیاں ہیں نہ شہنائی ہے
تمثیلہ لطیف