Urdu Deccan

Saturday, October 22, 2022

غضنفر غضنی

یوم پیدائش 06 اکتوبر 1992

تمہارا لہجہ تمہاری باتیں تباہ کن ہیں
حسین چہرہ ہے اور نگاہیں تباہ کن ہیں

بچھا کے رکھیں ہیں دشمنوں نے یہاں پہ کانٹے
تبہی تو چاہت بھری یہ راہیں تباہ کن ہیں

اگر جکڑلیں تو قید رکھتی ہیں زندگی بھر 
سنو یہ چاہت کی نرم باہیں تباہ کن ہیں

جو دیکھتا ہے وہ تجھ پہ کرتا ہے جان قرباں
یہ تیرا جلوہ تری ادائیں تباہ کن ہیں

ہمیں میسر نہیں ہے اک پل سکون غضنی
ہمارے دن اور ہماری راتیں تباہ کن ہیں

غضنفر غضنی



راج بلد یوراج

یوم پیدائش 06 اکتوبر 1924

مرے سکون کی دنیا میں اضطرار نہیں 
نہیں نہیں مجھے اب تیرا انتظار نہیں 

وہ بے وفائی کے قائل میں جاں نثاری کا 
کسی کو اپنی طبیعت پہ اختیار نہیں 

سمجھ سکے کوئی کیا میرے ظرف عالی کو 
پئے ہیں میکدے لیکن ذرا خمار نہیں 

تری نگاہ سے گر کر یقیں ہوا مجھ کو 
جہاں میں کوئی کسی کا بھی غم گسار نہیں 

مرے خفیف تبسم پہ بھولنے والو 
میں کامگار نہیں ہوں میں کامگار نہیں
 
ہیں دل سے ترک محبت کے مشورے لیکن 
تمہیں بھلا بھی سکوں گا یہ اعتبار نہیں 

معاملے میں محبت کے بد گمان ہوں راجؔ 
وہ کیا ہیں مجھ کو خدا کا بھی اعتبار نہیں 

راج بلد یوراج



مصروفہ قادر

یوم پیدائش 06 اکتوبر 1991

تھکن سے چور ہوتی جارہی ہوں
بہت رنجور ہوتی جارہی ہوں

ابھی کچھ بھی نہ بگڑا لوٹ آؤ
میں تم سے دور ہوتی جارہی ہوں

میں چپ ہوں اور دنیا کہہ رہی ہے
بہت مغرور ہوتی جارہی ہوں

تری یادوں کا سورج ڈھل رہا ہے
میں پھر بے نور ہوتی جارہی ہوں

نہیں آواز د ی اس بے خبر نے
میں کیوں مجبور ہوتی جارہی ہے

مصروفہ قادر



زین الحق خان آزاد

 یوم پیدائش 06 اکتوبر 1945


دن کوہنستی ہے بولتی ہے مگر

مفلسی رات بھر سسکتی ہے


زین الحق خان آزاد




عقیل احمد روبی

یوم پیدائش 06 اکتوبر 1940

کتاب کھول کے دیکھوں تو آنکھ روتی ہے 
ورق ورق ترا چہرا دکھائی دیتا ہے

عقیل احمد روبی

 

میر ضمیر

یوم وفات 05 اکتوبر 1855

چشم کو شوق اشک باری ہے 
چشمۂ فیض ہے کہ جاری ہے 

سوزن عیسوی سے کیا ہوگا 
زخم اپنے جگر کا کاری ہے 

ہم کہیں اور تم کہیں صاحب 
خاک یہ زندگی ہماری ہے 

رکھ کے سر اس قدم پہ مر جاتا 
بس یہی طرز جاں نثاری ہے 

یہ جو اڑتی ہے تیرے کوچہ میں 
خاکساروں کی خاکساری ہے 

یہ سبک تو نے کر دیا ظالم 
میرا مردہ بھی سب کو بھاری ہے 

میرے جینے میں خوش نہ مرنے میں 
پھر کہو کیا خوشی تمہاری ہے 

ابر ساں ہے ہجوم بارش اشک 
برق ساں شغل بے قراری ہے 

جو نہیں تھا کسی شمار میں آہ 
اسی عاشق کو دم شماری ہے 

کیجو برباد اس کے کوچے میں 
اے صبا خاک یہ ہماری ہے

میر ضمیر



اظہر رسول

یوم پیدائش 05 اکتوبر 1984

چاہتے ہو جو مرتبہ رکھنا
دل کا شفاف آئنہ رکھنا

زندگی کا یہی تقاضا ہے
دل میں ہردم نہ سانحہ رکھنا

ہو سکے تو غریب لوگوں سے
روز ملنے کا سلسلہ رکھنا

نیک طینت ہے یہ شرافت ہے
”جانے والوں سے رابطہ رکھنا“

اس نئےدورمیں حسینوں سے
تم ہمیشہ ہی فاصلہ رکھنا

لوگ تعریف بس کریں ہر دم
اپنی باتوں میں ذائقہ رکھنا

جاں فزا ہو حسیں غزل اظہرؔ
اس لیے خوب قافیہ رکھنا

اظہر رسول


 

کامل جونا گڑھی

یوم پیدائش 05: اکتوبر 1866

کلامِ احمدِ مرسل سمندر ہے لطافت کا
نزاکت کا، نفاست کا فصاحت کا بلاغت کا

شہِ کونین کا دل عہدِ طفلی ہی سے تھا مخزن
ریاضت کا، عبادت کا، محبت کا، قناعت کا

خدا نے سب سے پہلے کر رکھا تھا خاتمہ شہﷺ پر
نبوت کا، رسالت کا، ہدایت کا، شفاعت کا

نبی اُمّی نے سکھلایا سبھوں کو قاعدہ آکر
اطاعت کا، امارات کا، ریاست کا، سیاست کا

سنایا غازیانِ صف شکن کو شاہ نے مژدہ
قیادت کا، بشاشت کا، سعادت کا، شہادت کا

بڑھے پھر کیوں نہ دینِ مصطفٰے ہے وعدہ خالق
حفاظت کا، حمایت کا، اعانت کا، اشاعت کا

خدا نے ذاتِ احمد کو کیا کامل عجب دریا
شرافت کا، صداقت کا، سخاوت کا، شجاعت کا

کامل جونا گڑھی



عمران عامی

یوم پیدائش 05 اکتوبر 

میں سچ کہوں پس دیوار جھوٹ بولتے ہیں 
مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں 

ملی ہے جب سے انہیں بولنے کی آزادی 
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں 

میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا 
تو کیا یہ میرے عزا دار جھوٹ بولتے ہیں 

یہ شہر عشق بہت جلد اجڑنے والا ہے 
دکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ہیں 

بتا رہی ہے یہ تقریب منبر و محراب 
کہ متقی و ریاکار جھوٹ بولتے ہیں 

قدم قدم پہ نئی داستاں سناتے لوگ 
قدم قدم پہ کئی بار جھوٹ بولتے ہیں 

میں سوچتا ہوں کہ دم لیں تو میں انہیں ٹوکوں 
مگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں 

ہمارے شہر میں عامیؔ منافقت ہے بہت 
مکین کیا در و دیوار جھوٹ بولتے ہیں

عمران عامی

تمثیلہ لطیف

یوم پیدائش 05 اکتوبر 1983

تجھ کو چھوتے ہوئے جو باد صبا آئی ہے
ایسی خوشبو کی جہاں بھر میں پذیرائی ہے

تیرا مسکن ہے گلابوں کی سہانی بستی
میرے رہنے کو فقط گوشہ تنہائی ہے

ہے پذیرائی تیرے نقشِ قدم کی ہر سو
میرا ہونا ہی مجھے باعثِ رسوائی ہے

یاخدا خیر خدا خیر خدا خیر کرے
تجھ کو سوچا تو طبیعت میری گھبرائی ہے

آئینہ دیکھا تو چہرے کے تغیّر کے سبب
دل کے ہم راہ مری آنکھ بھی بھر آئی ہے

زندگی جبر کی تمثیل ہوئی تمثیلہ
کوئی ڈھولک ہے نہ سکھیاں ہیں نہ شہنائی ہے

تمثیلہ لطیف



محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...