Urdu Deccan

Monday, October 24, 2022

حمید نسیم

یوم پیدائش 16 اکتوبر 1920

محبت جادہ ہے منزل نہیں ہے 
یہ مشکل آخری مشکل نہیں ہے 

دل رہرو میں ہیں کچھ اور خطرے 
خیال دوریٔ منزل نہیں ہے 

خرد باطل خرد پر ناز باطل 
مگر یہ تو جنوں باطل نہیں ہے 

یہ دل بے مہر بھی ہے بے وفا بھی 
نہیں یہ دل تو میرا دل نہیں ہے 

ڈراتا ہے مجھے یوں خندۂ برق 
مجھے اندیشۂ حاصل نہیں ہے 

میں سب کچھ جانتا ہوں اپنا انجام 
مگر اظہار کے قابل نہیں ہے 

میان قعر دریا ہے سفینہ 
نہیں اے ناخدا ساحل نہیں ہے 

یہاں مہر و وفا نادانیاں ہیں 
یہ دنیا عشق کے قابل نہیں ہے 

یہ ہے مرحوم امیدوں کا مدفن 
کبھی دل تھا مگر اب دل نہیں ہے 

حمید نسیم



معصومہ بیگم معصومہ

یوم پیدائش 15 اکتوبر 1934
مرثیہ
شہہ کہتے تھے عباس علم دار کہاں ہو
آواز دو مجھ کو مرے جرار کہاں ہو

للہ صدا دو کہ نہیں ضبط کا یارا
اے قوتِ بازو مرے غم خوار کہاں ہو

تم شیر سے دریا کی ترائی میں ہو سوتے
ہم ڈھونڈتے ہیں بھائی وفادار کہاں ہو

زینب نے کہا آئی نہ کیوں رن سے سواری
خالی علم آیا ہے ، علم دار کہاں ہو

معصومہ عجب یاس سے کہتے تھے شہہِ دیں
اے جانِ برادر مرے دل دار کہاں ہو

معصومہ بیگم معصومہ


 

ہلال جعفری

یوم وفات 15 اکتوبر 1956

دلِ مضطر کا ہے اصرار بڑی مشکل ہے
کیسے ہو درد کا اظہار بڑی مشکل ہے

لاج رکھ لیجئے سرکار بڑی مشکل ہے
ہے بپا حشر کا بازار بڑی مشکل ہے

کوئی محسن ہے نہ غم خوار بڑی مشکل ہے
ایک سے ایک ہے بیزار بڑی مشکل ہے

کیسے پہنچوں گا میں اُس پار بڑی مشکل ہے
موجِ ساحل بھی ہے منجدھار بڑی مشکل ہے

دامنِ عفو ہے درکار بڑی مشکل ہے
اشک بہتے ہیں لگاتار بڑی مشکل ہے

یہ الگ بات اطبا بھی نہ پہچان سکے
میں مدینے کا ہوں بیمار بڑی مشکل ہے

سلکِ گوہر نہیں بنتا ہے یہ موتی آقا
چشمِ گریاں کا ہر اِک تار بڑی مشکل ہے

میری کشتی کا ہلاؔل آج نگہباں ہے خدا
بادباں کوئی نہ پتوار بڑی مشکل ہے

ہلال جعفری



احقر لکھنوی

یوم پیدائش 15 اکتوبر 1906
رباعی
احباب سے امیدِ رفاقت کیسی
عشرت میں یہ دیں فریبِ عسرت کیسی
کیا کاغذی پھولوں میں ہو خوشبو کا سوال
برفاب میں گرمی و حرارت کیسی

احقر لکھنوی



میر احمد نوید

یوم پیدائش 14 اکتوبر 1958

چراغ ہائے تکلف بجھا دیے گئے ہیں 
اٹھاؤ جام کہ پردے اٹھا دیے گئے ہیں 

اب اس کو دید کہیں یا اسے کہیں دیدار 
ہمارے آگے سے جو ہم ہٹا دیے گئے ہیں 

اب اس مقام پہ ہے یہ جنوں کہ ہوش نہیں 
مٹا دیے گئے ہیں یا بنا دیے گئے ہیں 

یہ راز مرنے سے پہلے تو کھل نہیں سکتا 
سلا دیے گئے ہیں یا جگا دیے گئے ہیں 

جو مل گئے تو تونگر نہ مل سکے تو گدا 
ہم اپنی ذات کے اندر چھپا دیے گئے ہیں 

چراغ بزم ہیں ہم راز دار صحبت بزم 
بجھا دیے گئے ہیں یا جلا دیے گئے ہیں

میر احمد نوید



شاہد جمیل شاکری

یوم پیدائش 13 اکتوبر 1939

چلنا اپنا جانبِ منزل کل بھی تھا اور آج بھی ہے
جہدِ عمل ہی زیست کا حاصل کل بھی تھا اور آج بھی ہے

شاہد جمیل شاکری

 

 

عرفان سلیمی

یوم پیدائش 13 اکتوبر 1992

کسی کی یاد سے تپنے لگی سفر کی سڑک
سو گریہ کرتے ہوئے دیکھ، میں نے تر کی سڑک

ٹہل کے اِس پہ تھکن، یاد، غم سے ملتا ہوں
فنا ہو جاتی ہے دن میں یہ رات بھر کی سڑک

میں دل میں سوچوں جو، اس کو سنائی دیتا ہے
براہِ راست اُدھر جاتی ہے اِدھر کی سڑک

شدید پیاس تھی اک جھیل کا پتا تھا مجھے
گئی نہیں مگر اُس سمت، تیرے در کی سڑک

چلوں تو دفن ہوئے لوگ یاد آ تے ہیں
مرے عزیزوں پہ گزری ہے مٹی پر کی سڑک

بہت درخت ہوں، سب پر خزاں بحال رہے
گرے ہوں ہر کہیں پتے، ملے نہ گھر کی سڑک

عرفان سلیمی

آصف عباس مرزا

یوم پیدائش 12 اکتوبر 1988
نمونہ کلام:منقبت

خداۓ پاک کا اب تک کلام باقی ہے
امام عصر کا ہونا قیام باقی ہے

تم اپنی فکر کرو برزخ و قیامت کی
ہمارے پاس ہمارا امام باقی ہے

ہو مومنوں کو نہ کیوں اطمنان قلب بھلا
زہے نصیب ظہور امام باقی ہے

یزید وقت نے ڈھاۓ ستم بڑے ہم پر
حسین عصر کا اب انتقام باقی ہے

حساب روز قیامت کی فکر کر آصف
ابھی بھی وقت ہے عمر تمام باقی ہے

آصف عباس مرزا



عبید خان

یوم پیدائش 12 اکتوبر 

کب تک چراغ ِ ہجر اکیلے جلاؤں میں
 ایسا بھی ہو کبھی کہ اسے یاد آؤں میں

احساس کے قفس سے رہا کر کے کچھ خیال
 نظموں کے آسمان پہ ان کو اڑاؤں میں

 باد صبا کے ہاتھ جو نامہ ملے مجھے
  اک خواب بن کے اس کے شبستاں میں جاؤں میں

دیتے ہوئے چمن کو بہار و خزاں کے رنگ
موسم کی گردشوں میں کہیں کھو نہ جاؤں میں

جب ذہنی انتشار کے حاصل ہوں رت جگے
اپنے تھکے شعور کو کیسے سلاؤں میں

اک عمر میں نے یاد میں ، جس کی گزار دی
کہتا ہے آج وہ کہ اسے بھول جاؤں میں 

تھکنے لگا ہوں دشت نوردی سے اب عبید
چھاؤں کہیں ذرا سی ملے ، بیٹھ جاؤں میں

عبید خان


 

شاہین مفتی

یوم پیدائش 12 اکتوبر 1954

اگر یہ روشنی قلب و نظر سے آئی ہے 
تو پھر شبیہ ستم گر کدھر سے آئی ہے 

مہک رہا ہے بدن مانگ میں ستارے ہیں 
شب فراق بتا کس کے گھر سے آئی ہے 

گلوں میں رنگ تو خون جگر سے آیا ہے 
مگر یہ تازگی اس چشم تر سے آئی ہے 

روش روش پہ کچھ ایسے ٹہل رہی ہے صبا 
کہ جیسے ہو کے تری رہ گزر سے آئی ہے 

اسے تو گوشۂ مخصوص میں سنبھال کے رکھ 
کرن ہے کوچۂ شمس و قمر سے آئی ہے

شاہین مفتی


 

محمد دین تاثر

 یوم پیدائش 28 فروری 1902 غیر کے خط میں مجھے ان کے پیام آتے ہیں کوئی مانے کہ نہ مانے مرے نام آتے ہیں عافیت کوش مسافر جنھیں منزل سمجھیں عشق...